Islamic Education

Tuesday, October 5, 2021

شبیہ رسول اللہ ﷺ ابومحمد حضرت سیدنا امام حسن بن علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ




Hazrat Imam Hassan bin Ali Al-Murtaza,
Hazrat Imam Hassan bin Ali Al-Murtaza,


 شبیہ رسول اللہ ﷺ ابومحمد حضرت سیدنا امام حسن بن علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا شار نابغہ روزگار میں ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللّٰہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسہ اور شکل و صورت میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔ آپ حضرت سید نا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی آنکھوں کا نور اور حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے دل کی دھڑکن ہیں ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کا نام حسن رضی اللّٰہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے منجاب اللہ رکھا۔ اسی نام کی برکت یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ نام دنیا میں کسی کا بھی نہیں رکھا گیا تھا اور اسی طرح آپ رضی اللّٰہ عنہ کے چھوٹے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام کی خاصیت بھی ہہی ہے ۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کی کنیت ابو محمد القابات تقی، زکی، مجتبیٰ۔ سید اور شبیہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم ہیں۔

 امام حسن کی پیدائش 3 ھجری میں ہوئی۔ آپ اپنے نام کی طرح حسن و جمال میں بے مثل تھے ۔ آپ ظاہری و بانی علوم سے آراستہ اور ان علوم پر کامل دسترس رکھتے تھے ۔ روایات میں آتا ہے کہ جس وقت آپ پیدا ہوۓ اس وقت حضور نبی کریم ﷺ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لاۓ اور حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللّٰہ عنہا سے فرمایا کہ میرے بیٹے کو لاؤ ۔ حضرت اسماء بنت عمیس گود میں حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کو لے کر حاضر ہوئیں ۔ آپ ﷺ نے حضرت سیدنا امام حسن کے داہنے کان میں اذان دی اور پھر بائیں کان میں تکبیر کہی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے ساتویں روز حضرت سیدنا امام حسن کا عقیقہ کیا اور آپ کے سر مبارک کے بال منڈ وائے ۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا کہ ان کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی خیرات کر یں ۔ نیز اس روز حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت سیدنا امام حسن کا ختنہ کروایا اور نام مبارک رکھا ۔ چنانچہ اسی نسبت سے بہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی سنت کہلائی ۔

مزید پڑھیں؛ حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام کی حکایات

روایات میں آتا ہے کہ جس وقت حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ پیدا ہوۓ حضور نبی کریم ﷺ تشریف لاۓ اور آپ رضی اللّٰہ عنہ کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور آپکے حق میں دعاۓ خیر فرمائی ۔ حضرت سید نا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی زمانہ طفولیت کے قریبا آٹھ سال اور چار ماہ حضور نبی کریم ﷺ کے سایہ عاطفت میں بسر کئے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کو محبوب رکھتا ہوں کیونکہ میں نے دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو اپنی گود میں بٹھا رکھا تھا اور آپ اس وقت حضور نبی کریم ﷺ کی ریش مبارک سے کھیل رہے تھے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کے منہ میں اپنی زبان دی اور فرمایا کہ اے اللہ ! میں حسن (رضی اللّٰہ عنہ) کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے اپنا محبوب بنالے 

حضرت عقبہ بن حارث رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت سید نا ابو بکر صد یق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ عصر کی نماز پڑھ کر مسجد نبوی کے سے نکلا تو راستہ میں حضرت سید نا امام حسن نظر آۓ جو کچھ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ حضرت سید نا ابو بکر صد یق رضی اللّٰہ عنہ والہانہ آگے بڑھے اور آپ ان کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا اور فرمانے لگے کہ میرا باپ بھی تجھ پر قربان ہو کیونکہ تم میرے آقا سرور دو جہاں حضور نبی کریم ﷺ کے مشابہ ہو اورعلی ( رضی اللّٰہ عنہ ) کے مشابہ نہیں ہو ۔ حضرت سید نا علی المرتضٰی نے جب حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا قول سنا تو مسکرا دیئے ۔

 طبقات ابن سعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ حالت نماز میں سربسجود ہیں اور حضرت سید نا امام حسن تشریف لائے اور آپ ﷺ کی کمر مبارک پر سوار ہو گئے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنا سجدہ بے حد لمبا کر لیا یہاں تک کہ حضرت سید نا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کمر سے نہ اتر گئے ۔

 حضرت سید نا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کو فتنہ و فساد اور خون ریزی قطعاً ناپسند تھی ۔ آپ کی طبیعت میں بردباری پائی جاتی تھی ۔ آپ کی سخاوت کے قصے بھی زبان زدوعام تھے ۔ ایک مرتبہ ایک اعرابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی حاجت بیان کی ۔ آپ کے پاس اس وقت دس ہزار درہم موجود تھے آپ رضی اللّٰہ عنہ نے وہ سب کے سب اس اعرابی کو دے دیئے تا کہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کر سکے ۔

 حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ نے پچیس حج باپیادہ کئے اور یہ تمام حج آپ رضی اللّٰہ عنہ نے برہنہ پا کئے۔ برہنہ پا چلنے کی وجہ سے آپ کے پاؤں میں ورم پڑ جاتے تھے ۔

 صحیح بخاری شریف میں حضرت سیدنا ابوبکر صد یق رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ منبر پر تشریف فرما تھے ۔ حضرت سیدنا امام حسن اس وقت آپ ﷺ کے پہلو میں بیٹھے ہوۓ تھے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور اللہ عزوجل اس کی وساطت سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرواۓ گا ۔ چنانچہ جب آپ اپنے والد بزرگوار حضرت سید نا علی المرتضٰی رضی اللّٰہ عنہ کے بعد منصب خلافت پر فائز ہوۓ تو آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ سے صلح کر لی اور مسلمانوں کو پھر سے ایک خلافت پر اکٹھا کیا ۔ حضرت سیدنا امام حسن نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد کا خطبہ دیا کہ: لوگو ! تم سے ایک ایسا شخص جدا ہوا ہے کہ نہ اگلے اس سے بڑھ سکے اور نہ پچھلے اس کو پا سکے حضور نبی کریمﷺ نےاسے اپنا علم عطا فرمایا اور وہ کبھی نا کام نہ رہا ۔ میکائیل و جبرائیل ( علیہ السلام ) اس کے دست راست تھے ۔ اس نے بوقت شہادت سات سو درہم جو اس کی مقرر تنخواہ سے بچ رہے تھے کگ سوا کچھ نہیں چھوڑا اور یہ درہم بھی ایک خادم کے لئے تھے۔

 حضرت سید نا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کے تحمل و بردباری کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کوفہ کی جامع مسجد کے دروازے پر تشریف فرما تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے آتے ہی آپ کو اور آپ کے والدین کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ آپ نے نہایت تحمل کے ساتھ اس سے دریافت کیا کہ کیا تو بھوکا ہے یا پھر تجھ پر کوئی اور مصیبت آن پڑی ہے ؟ اس دیہاتی نے آپ کی بات کو ان سنی کرتے ہوۓ پھر سے گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ آپ نے خادم سے کہہ کر ایک طشت چاندی کا منگوایا اور اسے ے دیا اور فر مایا کہ اس وقت میرے گھر میں صرف یہی موجود ہے تم اسے رکھ لو ۔ اس دیہاتی نے جب آپ کا کمال تحمل دیکھا تو کہنے لگا کہ میں صدق دل سے گواہی دیتا ہوں کہ آپ حقیقی فرزند رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ حضرت سید نا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کو عبادت میں خشوع وخضوع حاصل تھا ۔ آپ جب وضو فرمانے لگتے تو آپ کا ہر عضو کانپنا شروع ہو جا تا اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ زرد ہو جا تا ۔ آپ سے جب اس کیفیت کے بارے میں دریافت کیا جا تا تو آپ فرماتے کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں جو بھی کھڑا ہو اسے چاہئے کہ اس کے چہرہ کا رنگ زرد ہو اور اس کا ہر عضو کانپ رہا ہو ۔ آپ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کے جسم مبارک پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی ۔ جب آپ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو جہاں لفظ يايها الذین امنوا پڑھتے تو جوابا لبيك اللهم لبيك پڑھتے اور جب جنت و دوزخ والی آیات کی تلاوت فرماتے تو آپ بے تحاشا روتے رہتے تھے ۔

 ایک مرتبہ حضرت سیدنا امام حسن اپنے چند دوستوں کے ہمراہ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ خادم سالن لے کر آیا ۔ جب وہ سالن آپ کو پکڑانے لگا تو برتن اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور سالن آپ پر گر پڑا ۔ آپ نے جب اس کی جانب دیکھا تو اس نے حھٹ سے قرآن مجید کی آیت پڑھی جس کا مطلب تھا کہ غصہ کو پی جانے والے اور معاف کرنے والے اور احسان کرنے والوں سے اللہ محبت رکھتا ہے ۔ آپ نے جب اللہ عز وجل کا یہ فرمان سنا تو اس کو معاف کرتے ہوۓ آزاد فرما دیا ۔

 روایت میں آ تا ہے کہ جب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو حضرت سیدنا امام حسن آپ کی کیفیت دیکھ کر رو پڑے ۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے پوچھا : اے حسن ( رضی اللّٰہ عنہ) ! تو کیوں روتا ہے ؟ حضرت سیدنا امام حسن نے روتے ہوۓ عرض کیا : والد بزرگوار ! میں اس بات پر کیوں نہ روؤں کہ آپ ﷺ دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میں ہیں ۔ حضرت سیدنا علی المرتضی ﷺ نے فرمایا : میرے پیارے بیٹے ! میری چار باتوں کو یاد رکھنا یہ تمہیں کبھی نقصان نہ پہنچائیں گی ۔ اول تمام دولت سے زیادہ بڑی دولت عقل کی ہے، دوم سب سے بڑی محتاجی حماقت ہے، سوم سب سے زیادہ وحشت خودبینی ہے اور چہارم سب سے بہتر چیز اخلاق حسنہ ہے ۔ نیز چار با تیں مزید یہ ہیں کہ خود کو احمق کی دوستی سے بچانا کیونکہ وہ تیرے ساتھ نفع کا ارادہ کرے گا اور نقصان پہنچاۓ گا ۔ اپنے آپ کو جھوٹوں کی دوستی سے بچانا کیونکہ وہ دور کے لوگوں کو تجھ سے قریب کرے گا اور قریب کے لوگوں کو تجھ سے دور کرے گا ۔ اپنے آپ کو بخیل کی دوستی سے بچانا کیونکہ وہ تجھ سے اس چیز کو دور کرے گا جس کی تجھے زیادہ ضرورت ہو گی ۔ اپنے آپ کو فاسق کی دوستی سے بچانا کیونکہ وہ تجھے معمولی شے کی خاطر بیچ دے گا ۔

 حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کو اتفاق رائے سے اہل کوفہ نے خلیفہ مقرر کر دیا اور آپ کے دست حق پر بیعت کر لی ۔ قریبا پانچ ماہ بعد امام حسن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرواتے ہوۓ خلافت سے دستبردار ہو گئے۔

سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کی ازواج کی تعداد کثیر ہے جن سے آپ کی بے شمار اولاد تولد ہوئی ۔ آپ ﷺ کے کئی صاحبز ادوں نے میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا ۔ منقول ہے کہ حضرت سیدنا امام حسن جب خلافت سے دستبردار ہوۓ تو آپ اپنے تمام اہل خانہ اور حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ دوبارہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی جانب سے آپ کا ایک لاکھ در ہم سالانہ وظیفہ مقرر کیا گیا ۔ جس سال آپ کو شہید کیا گیا اس سال حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی جانب سے آپ کو وظیفہ نہ ملا ۔ جب وظیفہ میں تاخیر ہوئی تو آپ رضی اللّٰہ عنہ نے حالات کی تنگی کے سبب حضرت امیر معاویہ کو خط لکھنے کا ارادہ کیا ۔ ابھی آپ نے اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ نیند آ گئی ۔ خواب میں حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت با سعادت نصیب ہوئی ۔ آپ ﷺ نے اپنی تنگ دستی کا ذکر حضور نبی کریم سے کیا سے کیا تو حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو فرمایا کہ یہ دعا پڑھو :

 ’ ’ اے اللہ ! میرے دل میں اپنی امید پیدا فرما اور اپنے ماسوا سے میری امید کو ختم کر دے اور میں تیرے سوا کسی سے امید نہ رکھوں اور میری قوتوں کو کمزور نہ بنا اور میرے نیک اعمال میں مجھ سے کوتاہی نہ کروا اور مجھے ایسی قوت عطا فرما کہ میں ' تیری مخلوق کے پاس حاجت لے کر نہ جاؤں اور اے میرے رب ! مجھے یقین کی دولت سے مالا مال فرما ‘ ‘ 

ابھی آپ ﷺ کو یہ دعا پڑھتے ہوئے ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ حضر ت امیر معاویہ کی جانب سے ڈیڑھ لاکھ درہم وصول ہوئے اور ساتھ ہی حضرت امیر معاویہ کی جانب سے معذرت کا ایک خط بھی موصول ہوا ۔ آپ نے رقم ملتے ہی اللہ عزوجل کی بارگاہ میں شکرانے کے نوافل ادا کئے ۔

 حضرت عبداللہ بن طلحہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ شہادت سے کچھ عرصہ قبل حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان قل ھو اللہ احد لکھا ہوا ہے ۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللّٰہ عنہ نے جب آپ کا یہ خواب سنا تو کہا کہ آپ کی زندگی کے کچھ دن باقی رہ گئے اور آپ ہم سے عنقریب جدا ہونے والے ہیں ۔ 

حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔ جس وقت آپ کو زہر دیا گیا ۔اس وقت حضرت سید نا امام حسین علیہ السلام نے آپ رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آے اور  عرض کیا کہ بھائی ! آپ مجھے بتائیں کہ آپ کو زہر کس نے دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر میرا گمان درست ہے تو پھر اللہ عزوجل حقیقی بدلہ لینے والا ہے اور اگر میرا گمان غلط ہوا تو پھر میری وجہ سے کسی کو بے گناہ نہیں مارا جانا چاہئے ۔ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ کو زہر آپ کی ایک بیوی جعدہ بن اشعث بن قیس نے دیا تھا ۔ حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام نے 5 ربیع الاول 48 ھ کو اس جہان فانی سے کوچ فرمایا ۔ حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو جنت البقیع میں مدفون کیا گیا جہاں آج بھی آپ کی قبر مبارک مرجع گاہ خلائق خاص و عام ہے ۔

 حضرت ست نا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کے جنازہ کے متعلق روایات میں آتا ہے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد مدینہ منورہ کے ہر شخص کی آنکھ اشکبار تھی ۔ جب جنازہ اٹھایا گیا تو اس جنازے میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ سوئی بھی زمین پر پھینکی جاتی تو وہ بھی ہجوم کی وجہ سے زمین پر نہ گر نے پاتی ۔ حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام کا وصال کوئی معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ یہ صبر وتحمل، استغناء و بے نیازی اور عفو و درگزری کا وصال تھا ۔ آپ علیہ السلام کے وصال پر حضرت ابوہریرہ لوگوں کو پکار پکار کر کہتے تھے کہ آج رولو کیونکہ آج حضور نبی کریم ﷺ کا محبوب ہم سے جدا ہو گیا ہے ۔

 صحیح روایات کے مطابق حضرت سیدنا امام حسن علیہ السلام کی آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی تھیں ۔ آپ ﷺ کے رخسار پتلے اور کلائیاں گول تھیں ۔ داڑھی مبارک گنجان اور بل کھائی ہوئی تھی ۔ گردن مبارک بلند اور شفاف صراحی کی مانند تھی ۔ شانے اور بازو بھرے ہوۓ اور سینہ اقدس چوڑا تھا ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ زیادہ طویل قامت نہ تھے ۔ آپ کے سر کے بالے گھنگھریالے تھے اور آپ حسن و جمال کا بہترین ایک نمونہ تھے۔ آپ کی جانب ایک نظر دیکھنے سے گمان ہوتا تھا کہ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہوا ہے۔

No comments:

Post a Comment