| Eid Milad-un-Nabi |
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل، رحمت اور اِحسانِ عظیم ہیں۔ اُمتِ مسلمہ پر واجب ہے کہ وہ اس نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے کیوں کہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، اور کسی عطا پر اس کا شکر بجا لانا سنتِ انبیاء ہے
قرآن کی روشنی میں ارشاد باری تعالٰی ہوا،
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)
ترجمہ: کنزالعرفان
تم فرماؤ: اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔
بعض علماء نے فرمایا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فضل قرآن ہے اور رحمت حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے: ’’وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘(انبیاء:۱۰۷)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔
اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو یاد کرنا جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم پر نازل کیں کے حوالے سے ارشاد فرمایا؛
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
ترجمہ ؛ اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ اس میں ان لوگوں کے لیے جو صابر وشاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔
اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ ، کے حوالے سے امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔ جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)۔
حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
بينا موسي عليه السلام في قومه يذکرهم بأيام اﷲ، وأيام اﷲ بلاؤه ونعماؤه.
’’ہم میں موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاتے تھے۔ اور اللہ کے دنوں سے مراد (اس کی طرف سے) مصائب اور نعمتوں کے اترنے کے دن ہیں۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9 : 342
مفسرین کرام نے وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اﷲِ کی تفسیر کے ذیل میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے مراد ہے:
بنعم اﷲ عليهم.
’’اُن پر اللہ کی نعمتوں کا اُترنا۔‘‘
1. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 9 : 341
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 5 : 6
3. شوکاني، فتح القدير، 3 : 95
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نام وَر تابعی شاگرد مجاہد اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کرتے ہیں :
بالنعم التي أنعم بها عليهم : أنجاهم من آل فرعون وفلق لهم البحر وظلل عليهم الغمام وأنزل عليهم المن والسلوي.
’’اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرنا جو اس نے ان پر نازل کیں، اس نے ان کو آلِ فرعون سے نجات دی، ان کے لیے سمندر کو پھاڑا، ان کے اوپر بادلوں کا سایہ کیا اور ان پر من و سلوی اتارا۔‘‘
1. طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 13 : 184
2. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 5 : 6
یہ آیت اتارنے کا مقصد یہ تھا کہ بنی اسرائیل اﷲ کے دنوں کی یاد منائیں تاکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی ان دنوں کی یاد مناتی رہیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان اَیام میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا تھا : انہیں فرعون کی سختیوں سے نجات دی گئی، فرعون کو غرقِ نیل کرکے انہیں اس میں سے صحیح سلامت نکالا گیا، اُن پر سخت دھوپ میں بادلوں کا سایہ کیا گیا حتی کہ ان کی خوراک کا بھی آسمانی بندوبست کیا گیا اور وہ من و سلویٰ سے نوازے گئے۔ اتنی کثیر نعمتوں سے مالا مال کرنے کے بعد ان کویاد دلایا جا رہا ہے کہ مرورِ اَیام سے وہ دن جب بھی لوٹ کر آئے تو ان پر لازم ہے کہ اُس دن ملنے والی نعمتیں یاد کرکے اپنے رب کا شکر بجا لائیں اور خوب عبادت کریں۔
(2) یومِ نزولِ مائدہ کو بہ طورِ عید منانا
قرآن حکیم فرماتا ہے :
قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَO
’’عیسیٰ بن مریم نے عرض کیا : اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہو جائے، ہمارے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی)، اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہےo‘‘
المائدة، 5 : 114
ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نے جامع البیان فی تفسیر القرآن میں اس آیت کی تفسیر میں قولِ صحیح نقل کرتے ہوئے کہا کہ اِس دعا کا معنی یہ ہے کہ نزولِ خواں کا دن ہمارے لیے عید ہو جائے، اس دن ہم اسی طرح نماز پڑھیں گے جیسے لوگ عید کے دن نمازِ شکرانہ ادا کرتے ہیں
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 7 :177
اِس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ وہ نزولِ مائدہ کا دن بہ طورِ عید منائیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں، اﷲ کی عبادت کریں اور شکر بجا لائیں۔ اِس سے یہ اَمر بھی مترشح ہوا کہ جس دن اﷲ تعالیٰ کی کوئی خاص رحمت نازل ہوتی ہے، اس دن شکر الٰہی کے ساتھ اِظہارِ مسرت کرنا، عبادت بجا لانا اور اس دن کو عید کی طرح منانا طریقہ صالحین اور اہل اﷲ کا شیوہ رہا ہے۔ امام الانبیاء، محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیائے آب و گل میں تشریف آوری کا دن خدائے بزرگ و برتر کی عظیم ترین نعمت اور رحمت کے نزول کا دن ہے، کیوں کہ اسے خود ﷲ نے نعمت قرار دیا ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا -
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے (المائدہ -3)
اس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا، شکر اِلٰہی بجا لانا اور اظہارِ مسرت و شادمانی کرنا انتہائی مستحسن و محمود عمل ہے، اور یہ ہمیشہ سے مقبولانِ الٰہی کا طریقہ رہا ہے
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی ) ۔ مسلمان تو عید میلاد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں اپنے گھروں ا ور مساجد پر چراغاں کرتے ہیں ، خالق کائنات نے نہ صرف ساری کائنات میں چراغاں کیا بلکہ آسمان کے ستاروں کو فانوس اور قمقمے بنا کر زمین کے قریب کردیا ۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں ، ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی ، میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے روشن ہوگیا ۔ اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر گر نہ پڑیں ۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعات کی تاریخی خوشی میں مسرت و شادمانی کا اظہار ہے اور یہ ایسا مبارک عمل ہے جس سے ابولہب جیسے کافر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
ابولہب کا واقعی یوں ھے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے وقت ابولہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ (رضی اللہ تعالٰی عنہا) نے آکر ابولہب کو ولادت نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خبر دی۔ ابولہب سن کر اتنا خوش ہوا کہ انگلی سے اشارہ کرکے کہنے لگا، ثوبیہ! جا آج سے تو آزاد ہے۔ ابولہب جس کی مذمت میں پوری سورہ لہب نازل ہوئی ایسے بدبخت کافر کو میلاد نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے موقع پر خوشی منانے کا کیا فائدہ حاصل ہوا امام بخاری کی زبانی سنئیے:
جب ابولہب مرا تو اس کے گھر والوں (میں حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے اس کو خواب میں بہت برے حال میں دیکھا۔ پوچھا، کیا گزری ؟ ابولہب نے کہا تم سے علیحدہ ہو کر مجھے خیر نصیب نہیں ہوئی۔ ہاں مجھے (اس کلمے کی) انگلی سے پانی ملتا ہے جس سے میرے عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے کیوں کہ میں نے (اس انگلی کے اشارے سے) ثوبیہ کو آزاد کیا تھا، اور ہر پیر کو عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔
اگرابولہب جیسے کافر کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ہر پیر کو عذاب میں تخفیف نصیب ہوسکتی ہے۔ تو اُس مومن مسلمان کی سعادت کا کیا ٹھکانا ہوگا جس کی زندگی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے میں بسر ہوتی ہو۔
کتب سیر واحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:
فَصَعِدَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ فَوْقَ الْبُيُوتِ وَتَفَرَّقَ الْغِلْمَانُ وَالْخَدَمُ فِي الطُّرُقِ يُنَادُونَ: يَا مُحَمَّدُ! يَا رَسُولَ اﷲِ! يَا مُحَمَّدُ! يَا رَسُولَ اﷲِ!
مرد اور عورتیں گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب نعرے لگا رہے تھے یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!
مسلم، الصحيح، 4: 231، رقم: 2009، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
أبو يعلی، المسند، 1: 107، رقم: 116، دمشق: دار المأمون للتراث
مروزي، المسند: 129، رقم: 65، بيروت: المکتب لاسلامي
امام رویانی، ابن حبان اور امام حاکم کی روایات کے مطابق اہالیان مدینہ جلوس میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:
جَاءَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.
اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔
امام حاکم اس حدیث مبارکہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِحٌ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
یہ حدیث مبارکہ امام بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے روایت نہیں کیا
روياني، المسند، 1: 138، رقم: 329، القاهرة: مؤسسة قرطبة
ابن حبان، الصحيح، 15: 289، رقم: 68970، بيروت: مؤسسة الرسالة
حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 14، رقم: 4282، بيروت: دار الکتب العلمية
معصوم بچیاں اور دوشیزائیں دف بجا کر دل وجان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو ان اشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا
مِنْ ثَنِيَاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَيْنا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ
أَيُهَا الْمَبْعُوْتُ فِيْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمَطَاعِ
(ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اﷲ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
ابن أبي حاتم رازي، الثقات، 1: 131، بيروت: دار الفکر
ابن عبد البر، التمهيد لما في الموطا من المعاني والأسانيد، 14: 82، مغرب (مراکش): وزات عموم الأوقاف
أبو عبيد اندلسي، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4: 1373، بيروت: عالم الکتب
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ آمد پر مذکورہ بالا اشعار کا پڑھا جانا محب طبری، امام بیہقی، ابن حجر عسقلانی، ابن کثیر، علامہ عینی، امام قسطلانی، امام زرقانی، احمد زینی دحلان کے علاوہ بھی دیگر محدثین، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے نقل کیا ہے۔
مدینہ طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت آپ کے استقبال کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوئی مگر آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی خوشی منانا، آپ کے مناقب و محاسن بیان کرنا اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی اپنے یومِ ولادت کی تعظیم فرماتے اور اِس کائنات میں اپنے ظہور وجود پر سپاس گزار ہوتے ہوئے پیر کے دن روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے یوم ولادت کی تعظیم و تکریم فرماتے ہوئے تحدیثِ نعمت کا شکر بجا لانا حکم خداوندی تھا کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے وجودِ مسعود کے تصدق و توسل سے ہر وجود کو سعادت ملی ہے۔ جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مسلمانوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام جیسے اَہم فرائض کی رغبت دلاتا ہے اور قلب و نظر میں ذوق و شوق کی فضاء ہموار کرتا ہے، صلوۃ و سلام بذات خود شریعت میں بے پناہ نوازشات و برکات کا باعث ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ھے ؛
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
اس لیے جمہور اُمت نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد مستحسن سمجھا۔ سیرتِ طیبہ کی اَہمیت اُجاگر کرنے اور جذبۂ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کے لیے محفلِ میلاد کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فضائل، شمائل، خصائل اور معجزاتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ اور اُسوۂ حسنہ کا بیان ہوتا ہے۔ خیر البشر کی ذات اقدس اس کائنات کے لئے باعث رحمت تو ہے ہی لیکن انہیں ہر شعبے میں وہ معراج حاصل ہے، جس کی مثال ہی نہیں ملتی۔
حضور پاک کی زندگی کا احاطہ کرنا تو انسان کے لئے شاید ممکن نہ ہو لیکن ہر شعبہ ہائے زندگی میں وہ عام انسان کے لئے بہترین عملی نمونہ نظر آئے۔ آپﷺ نے علم و نور کی ایسی شمعیں روشن کیں جس نے عرب جیسے علم و تہذیب سے عاری معاشرے میں جہالت کے اندھیروں کو ختم کر کے اسے دنیا کا تہذیب یافتہ معاشرہ بنا دیا، آپﷺ نے اپنی تعلیمات میں امن ،اخوت ،بھائی چارہ، یکجہتی اور ایک دوسرے کو برداشت کا درس دیا۔ جہاں ایک طرف اس ماہ ہم آپﷺ کی ولادت کا جشن مناتے ہیں وہیں ہم پر لازم ہے کہ ہم آپ ﷺکی تعلیمات پر عمل کریں تبھی ہم آپﷺ سے محبت کا دعویٰ کرسکتے ہیں، آج کے اس پر فتن دور میں اگر ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو بھول کر ملت اسلامیہ کے عظیم مفاد میں اکھٹے ہوجائیں اور آپﷺ کی تعلیمات کو اپنے لیے مشعل راہ بنالیں تو گھر کی دہلیز سے ریاست اور عالم اسلام کی مضبوطی تک تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔
کچھ حضرات کو جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بلاوجہ اعتراض ہے، اعتراضات کرنے والوں سے میرے دو سوال ہیں، اگر ان کے پاس جواب ہو تو ضرور ارسال کریں۔
نمبر ایک، قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کے لیے رحمت اور نعمت ہیں۔ اب اگر اعتراض کرنے والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی کوئی نعمت اور رحمت اس دنیا میں نظر آئے تو بتائیں ؟ (یقیناً نہیں ہے)
نمبر دو، رب العالمین کی نعمت اور رحمت کا شکر بجا لانے اور، ان نعمتوں اور رحمتوں کے نزول کے دنوں کو یاد کرنے کا حکم خود ربِ کریم نے فرمایا، اب اعتراض کس بات پر، رب العزت کے حکم پر یا نزول رحمت اور نعمت پر ؟
(استغفر اللہ)
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام


No comments:
Post a Comment