Islamic Education

Saturday, October 30, 2021

والدین کو ستانے سے توبہ

والدین کو ستانے سے توبہ
والدین کو ستانے سے توبہ


ماں باپ کوستانا برا فعل ہے لیکن انہیں مارنا یا تکلیف دینا اس سے بھی برا ہے اس لئے اسلام نے ماں باپ کی نافرمانی اور ایذا رسانی کو گناہ کبیرہ اور حرام قرار دیا ہے ۔ وہ اولا د جو بڑی ہو کر ماں باپ کی نافرمانی کرتی ہے بات بات پر انہیں برا بھلا کہتی ہے یا ماں باپ کو گالیاں نکالتی ہے یا اپنے ناجائز مطالبات پر انہیں مارتی پیٹتی ہے وہ نادان اور بیوقوف ہے بلکہ اخلاقی طور پر مجرم ہے اولاد کو کیا معلوم کہ جس ماں باپ کی وہ بے عزتی کر رہی ہے ۔ انہوں نے کتنی تکالیف اٹھا کر اسے پال کر جوان کیا، پڑھایا لکھایا، حسب تو فیق کھلایا پلایا اور پہنایا، نیک اور صالح بنانے کی کوشش کی اولاد ماں کی اس رات کی تکلیف کا بدلہ چکا نہیں سکتی جب وہ اپنی اولاد کے لئے پیشاب سے گیلے کیے ہوۓ کپڑوں پر خود لیٹ کر انہیں خشک جگہ پر ڈالتی ہے ۔ ایسے ہی انسان والد کی اس مشقت کا کیا بدلہ چکا سکتا ہے جس کوفت سے والد کما کراپنی اولاد کی ضروریات پوری کرتا ہے ۔ القصہ والدین کو اولاد کی پرورش کے لیئے ہے پناہ مصائب اور پریشانیاں برداشت کر نا پڑتی ہیں جس کی بناء پر اللہ تعالی نے والد ین کے احترام اور خدمت کو فرض قرار دیا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی آیات حسب ذیل ہیں :۔

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَاِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِىْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ (العنکبوت)8

اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اور اگر وہ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک بنائے جسے تو جانتا بھی نہیں تو ان کا کہنا نہ مان، تم سب نے لوٹ کرمیرے ہاں ہی آنا ہے تب میں تمہیں بتا دوں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔


اس آیت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت ضروری ہے اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں لیکن ایمان کو چھوڑ کر کفر و شرک کو تسلیم کرنے کے لئے ان کی بات بالکل نہ مانی جاۓ بلکہ حق اور سچ پر ڈٹے رہنا چا ہیے۔

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِۚ حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٝ فِىْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُـرْ لِـىْ وَلِوَالِـدَيْكَۚ اِلَـىَّ الْمَصِيْـرُ (14)

 

اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو (انسان) میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے، میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

اس آیت میں بھی یہی تاکید کی گئی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاۓ لیکن ان دونوں میں ماں کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ ماں نے اپنے بچے کو نو مہینے تک مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر اس کے جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا ۔ پھر بچے کواپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا دودھ پلایا اور اس کی پرورش کی اور ہر قسم کی راحت قربان کی اور اپنا ہر آرام ترک کیا اور اپنی ہر خوشی نثار کر دی اس لئے جنت کو ماں کے قدموں میں قرار دیا گیا ہے۔

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِ اِحْسَانًا ۖ حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَـمْلُـهٝ وَفِصَالُـهٝ ثَلَاثُوْنَ شَهْرًا ۚ حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٝ 

(15،الاحقاف)

اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا 

یہاں پھر پہلے والی بات کی دوبارہ تا کید کی گئی ہے کہ ماں کے ساتھ ہر حال میں اچھا سلوک کرو اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماں کے مقام کو مد نظر رکھتے ہوۓ ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے پر بہت زور دیا ہے ۔ 

 مزید پڑھیں؛  والدین سے حسن سلوک   

والدین کی اطاعت ہی سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی خوشنودی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی خفگی والدین کی ناراضگی میں ہے

  

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا۔

يا رسول اللہ ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے، تو فرمایا وہی تیری جنت ہیں اور وہی تیری دوزخ ہیں۔

يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا قَالَ هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ

ماں باپ کا اولا د پر بہت حق ہے ۔ ان کے ساتھ نیکی کرنا اور رنج نہ پہنچانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک حصول جنت کا ذریعہ ہے اور انہیں رنجیدہ کر نا دوزخ میں جانے کا موجب ہے ۔ اس لئے فر مایا کہ تیری جنت اور دوزخ دونوں وہی ہیں اور ماں باپ کو شفقت اور رحمت اور پیار سے دیکھنے سے حج مقبول کا ثواب ملتا ہے ۔ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں : ۔

حدیث مبارکہ؛

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ جو نیکی کر نے والا فرزند اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو خدا اس کیلئے ہر مرتبہ دیکھنے کے بدلے میں اس کے اعمال نامے میں ایک حج مقبول کا ثواب لکھتا ہے ، صحابہ کرام نے عرض کیا اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ دیکھے۔ آپ نے فرمایا ہاں اللہ بہت بڑا اور پاکیزہ تر ہے ۔ ( مسلم )

 

اس حدیث سے بات معلوم ہوئی کہ اگر اولاد ماں باپ کو پیار و محبت سے دیکھے تو حج مقبول کا ثواب پاۓ گی دن میں سو مرتبہ دیکھے تو سو مرتبہ حج کا ثواب ملے گا ۔ اطاعت اور خدمت گزاری کا اس سے بھی کہیں زیادہ ثواب ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا؛

حدیث مبارکہ؛

جو شخص اللہ کے لئے اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری میں صبح کرتا ہے جنت کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں، اگر ایک ہے تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور جو شخص ان کی نافرمانی میں صبح کرتا ہے دوزخ کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اگر ایک ہے تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے ۔ ایک آدمی نے کہا اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں؟ فرمایا اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پرظلم کریں

 مزید پڑھیں؛ مذاق اڑانے سے توبہ

ماں باپ کے مقام کو مد نظر رکھتے ہوۓ اللہ تعالی نے یہاں تک حکم دیا ہے کہ ان کو یں اف تک نہ کہو بنی 

وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا (23-بنی اسرائیل)

اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔

 


اس آیت سے معلوم ہوا کہ والدین سے سخت کلامی سے پیش آنا بھی اللہ کو پسند نہیں چہ جائے کہ ان کی بے عزتی کی جائے یا ان کی ایذا رسانی کی جاۓ اور انہیں طرح طرح کا دکھ دیا جاۓ لہذا اللہ کے رسول نے بھی والدین کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے ۔

حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے ماؤں کی نافرمانی کرنا اور لڑکیوں کو زندہ گاڑنا تمہارے لئے حرام قرار دیا ہے ، بخیلی اور گدائی کو تم پر حرام کیا ہے اور زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے

ماں باپ کو گالی دینے سے منع فرمایا گیا ہے بلکہ دوسروں کے ماں باپ کو بھی گالی نہیں دینی چا ہیے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو گالی دنیا کبیرہ گناہ ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ فرمایا ہاں، دوسرے آدمی کے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ۔

ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے سے اور ان کی خدمت گزاری کر نے سے اللہ تعالی دنیا و آخرت کی مصیبتوں کو دور کر دیتا ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی اطاعت کے ثواب کو ایک نہایت مؤثر حکایت میں فرمایا کہ تین مسافر راہ میں چل رہے تھے کہ اتنے میں موسلادھار بارش برسنے لگی ۔ تینوں نے بھاگ کر ایک غار میں پناہ لی۔ ایک چٹان اوپر سے گری کہ اس سے اس غار کا منہ بند ہو گیا ۔ اب ان کی بےکسی اور بےچارگی اور اضطراب اور بےقراری کا کون اندازہ کر سکتا ہے ۔ ان کو موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی ۔اس وقت انہوں نے پورے خشوع اور خضوع کے ساتھ دربارالہی میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاۓ ۔ ہر ایک نے کہا کہ اس وقت ہر ایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ خدا کو دینا چاہیے۔

 تو پہلے نے کہا بارالہا تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے میں بکریاں چرایا کرتا تھا اور اس پر ان کی روزی کا سہارا تھا ۔ میں شام کو بکریاں لے کر جب گھر آ تا تو دودھ دوہ کر پہلے اپنے ماں باپ کی خدمت میں لا تا تھا جب وہ پی چکتے تب میں اپنے بچوں کو پلاتا ۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے کو دور نکل گیا لوٹا تو میرے والدین سو چکے تھے ۔ میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہو گیا نہ ان کو جگاتا تھا کہ ان کی راحت میں خلل آ جاتا اور نہ ہٹتا تھا کہ خدا جانے کس وقت ان کی آنکھیں کھلیں اور دودھ مانگیں ۔ بچے بھوک سے بلک رہے تھے مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں ۔ میں اس طرح پیالے میں دودھ لئے رات بھر ان کے سرہانے کھڑا رہا اور وہ آرام کرتے رہے ۔ خدا وند تجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا ہے تو اس غار کے منہ سے چٹان کو ہٹا دے یہ کہنا تھا کہ چٹان کوخود بخود جنبش ہوئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سا سرک گئی اور اس کے بعد باقی دو مسافروں کی باری آئی اور انہوں نے بھی اپنے کاموں کو وسیلہ بنا کر دعا کی اور غار کا منہ کھل گیا اور وہ سلامتی کے ساتھ باہر نکل آۓ ۔ ( بخاری )



حضرت عبداللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں کہ’علقمہ ‘‘ نامی ایک شخص جونماز روزہ کا بہت پابند تھا جب اس کے انتقال کا وقت قریب آیا تو اس کے منہ سے باوجود تلقین کے کلمہ شہادت جاری نہ ہوتا تھا علقمہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع کرائی ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ علقمہ کے والدین زندہ ہیں یا نہیں ؟ معلوم ہوا کہ صرف والدہ زندہ ہے اور وہ علقمہ سے ناراض ہے ۔ آپ نے علقمہ کی ماں کو اطلاع کرائی کہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔تم میرے پاس آتی ہو یا میں تمہارے پاس آؤں ۔ علقمہ کی والدہ نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ۔ میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی بلکہ میں خود ہی حاضر ہوتی ہوں چنانچہ بڑھیا حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔ آپ نے علقمہ کے متعلق کچھ دریافت فرمایا تو اس نے کہا علقمہ نہایت نیک آدمی ہے لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلہ میں ہمیشہ میری نافرمانی کرتا ہے اس لئے میں اس سے ناراض ہوں ۔ آپ نے فرمایا اگر تو اس کی خطا معاف کر دے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے لیکن اس نے انکار کیا ۔ تب آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلا دو ۔ بڑھیا یہ سن کر گھبرا گئی اور اس نے حیرت سے دریافت کیا کہ میرے بچے کو آگ میں جلایا جاۓ گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اللہ کے عذاب کے مقابلے میں ہمارا عذاب ہلکا ہے ، خدا کی قسم ! جب تک تو اس سے ناراض ہے نہ اس کی نماز قبول ہے نہ کوئی صدقہ قبول ہے ۔ بڑھیا نے کہا میں آپ کو اور لوگوں کو گواہ کرتی ہوں کہ میں نے علقمہ کا قصور معاف کر دیا ۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا دیکھو علقمہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوا ھے کی نہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! علقمہ کی زبان پرکلمہ شہادت جاری ہو گیا اور کلمہ شہادت کے ساتھ انہوں نے انتقال کیا ۔ آپ نے علقمہ کے غسل و کفن کا حکم دیا اور خود جنازے کے ساتھ تشریف لے گئے ۔ علقمہ کوفن کرنے کے بعد فرمایا۔ 

” مہاجرین و انصار میں سے جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اس کو تکلیف پہنچائی تو اللہ کی لعنت فرشتوں کی لعنت اور سب لوگوں کی لعنت ہوتی ہے ۔ خدا تعالی نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے، نہ نفل، یہاں تک کہ وہ اللہ سے توبہ کرے اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اور جس طرح ممکن ہو، اس کو راضی کرے۔ اس کی رضا ماں کی رضامندی پر موقوف ہے اور خدا تعالی کا غصہ اس کے غصہ میں پوشیدہ ہے ‘ ‘ ۔ ( طبرانی )

 لہذا جو حضرات خدانخواستہ اگر والدین کی نافرمانی یا ایذا رسانی میں مبتلا ہوں انہیں چاہیے کہ وہ سچے دل سے توبہ کر لیں اور ہرممکن طریقے سے والدین کو راضی رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ اسی میں انسان کی فلاح ہے۔


No comments:

Post a Comment