والدین کو ستانے سے توبہ |
ماں باپ کوستانا برا فعل ہے لیکن انہیں مارنا یا تکلیف دینا اس سے بھی برا ہے اس لئے اسلام نے ماں باپ کی نافرمانی اور ایذا رسانی کو گناہ کبیرہ اور حرام قرار دیا ہے ۔ وہ اولا د جو بڑی ہو کر ماں باپ کی نافرمانی کرتی ہے بات بات پر انہیں برا بھلا کہتی ہے یا ماں باپ کو گالیاں نکالتی ہے یا اپنے ناجائز مطالبات پر انہیں مارتی پیٹتی ہے وہ نادان اور بیوقوف ہے بلکہ اخلاقی طور پر مجرم ہے اولاد کو کیا معلوم کہ جس ماں باپ کی وہ بے عزتی کر رہی ہے ۔ انہوں نے کتنی تکالیف اٹھا کر اسے پال کر جوان کیا، پڑھایا لکھایا، حسب تو فیق کھلایا پلایا اور پہنایا، نیک اور صالح بنانے کی کوشش کی اولاد ماں کی اس رات کی تکلیف کا بدلہ چکا نہیں سکتی جب وہ اپنی اولاد کے لئے پیشاب سے گیلے کیے ہوۓ کپڑوں پر خود لیٹ کر انہیں خشک جگہ پر ڈالتی ہے ۔ ایسے ہی انسان والد کی اس مشقت کا کیا بدلہ چکا سکتا ہے جس کوفت سے والد کما کراپنی اولاد کی ضروریات پوری کرتا ہے ۔ القصہ والدین کو اولاد کی پرورش کے لیئے ہے پناہ مصائب اور پریشانیاں برداشت کر نا پڑتی ہیں جس کی بناء پر اللہ تعالی نے والد ین کے احترام اور خدمت کو فرض قرار دیا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی آیات حسب ذیل ہیں :۔
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَاِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِىْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ اِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ (العنکبوت)8 |
اور ہم نے
انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اور اگر وہ تجھے
اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ اسے شریک بنائے جسے تو جانتا بھی نہیں تو
ان کا کہنا نہ مان، تم سب نے لوٹ کرمیرے ہاں ہی آنا ہے تب میں تمہیں بتا دوں گا
جو کچھ تم کرتے تھے۔ |
اس آیت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ والدین کی خدمت ضروری ہے اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں لیکن ایمان کو چھوڑ کر کفر و شرک کو تسلیم کرنے کے لئے ان کی بات بالکل نہ مانی جاۓ بلکہ حق اور سچ پر ڈٹے رہنا چا ہیے۔
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ
بِوَالِـدَيْهِۚ حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ وَهْنًا
عَلٰى وَهْنٍ وَّفِصَالُـهٝ فِىْ
عَامَيْنِ اَنِ اشْكُـرْ لِـىْ وَلِوَالِـدَيْكَۚ اِلَـىَّ الْمَصِيْـرُ (14)
|
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو (انسان) میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے، میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ |
اس آیت میں بھی یہی تاکید کی گئی ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاۓ لیکن ان دونوں میں ماں کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ ماں نے اپنے بچے کو نو مہینے تک مشکل سہہ کر اور سختی اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور پھر اس کے جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا ۔ پھر بچے کواپنی چھاتیوں سے لگا کر اپنا دودھ پلایا اور اس کی پرورش کی اور ہر قسم کی راحت قربان کی اور اپنا ہر آرام ترک کیا اور اپنی ہر خوشی نثار کر دی اس لئے جنت کو ماں کے قدموں میں قرار دیا گیا ہے۔
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِـدَيْهِ اِحْسَانًا ۖ حَـمَلَتْهُ اُمُّهٝ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَـمْلُـهٝ وَفِصَالُـهٝ ثَلَاثُوْنَ شَهْرًا ۚ حَتّــٰٓى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٝ (15،الاحقاف) |
اور ہم نے
انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف
سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس
مہینے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا |
یہاں پھر پہلے والی بات کی دوبارہ تا کید کی گئی ہے کہ ماں کے ساتھ ہر حال میں اچھا سلوک کرو اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماں کے مقام کو مد نظر رکھتے ہوۓ ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے پر بہت زور دیا ہے ۔
مزید پڑھیں؛ والدین سے حسن سلوک
والدین کی اطاعت ہی سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی خوشنودی والدین کی
رضا مندی میں ہے اور اللہ کی خفگی والدین کی ناراضگی میں ہے |
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا۔
يا رسول اللہ ! ماں
باپ کا اولاد پر کیا حق ہے، تو فرمایا وہی تیری جنت ہیں اور وہی تیری دوزخ ہیں۔ |
يَا رَسُولَ اللَّهِ
مَا حَقُّ الْوَالِدَيْنِ عَلَى وَلَدِهِمَا قَالَ هُمَا جَنَّتُكَ وَنَارُكَ |
ماں باپ کا اولا د پر بہت حق ہے ۔ ان کے ساتھ نیکی کرنا اور رنج نہ پہنچانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک حصول جنت کا ذریعہ ہے اور انہیں رنجیدہ کر نا دوزخ میں جانے کا موجب ہے ۔ اس لئے فر مایا کہ تیری جنت اور دوزخ دونوں وہی ہیں اور ماں باپ کو شفقت اور رحمت اور پیار سے دیکھنے سے حج مقبول کا ثواب ملتا ہے ۔ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں : ۔
حدیث مبارکہ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں باپ کے ساتھ جو نیکی کر نے والا فرزند اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو خدا اس کیلئے ہر مرتبہ دیکھنے کے بدلے میں اس کے اعمال نامے میں ایک حج مقبول کا ثواب لکھتا ہے ، صحابہ کرام نے عرض کیا اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ دیکھے۔ آپ نے فرمایا ہاں اللہ بہت بڑا اور پاکیزہ تر ہے ۔ ( مسلم ) |
اس حدیث سے بات معلوم ہوئی کہ اگر اولاد ماں باپ کو پیار و محبت سے دیکھے تو حج مقبول کا ثواب پاۓ گی دن میں سو مرتبہ دیکھے تو سو مرتبہ حج کا ثواب ملے گا ۔ اطاعت اور خدمت گزاری کا اس سے بھی کہیں زیادہ ثواب ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا؛
حدیث مبارکہ؛
جو شخص اللہ کے لئے اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری میں صبح کرتا ہے جنت کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں، اگر ایک ہے تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور جو شخص ان کی نافرمانی میں صبح کرتا ہے دوزخ کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اگر ایک ہے تو ایک دروازہ کھل جاتا ہے ۔ ایک آدمی نے کہا اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں؟ فرمایا اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پرظلم کریں |
مزید پڑھیں؛ مذاق اڑانے سے توبہ
ماں باپ کے مقام کو مد نظر رکھتے ہوۓ اللہ تعالی نے یہاں تک حکم دیا ہے کہ ان کو یں اف تک نہ کہو بنی
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوٓا اِلَّآ
اِيَّاهُ وَبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا ۚ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ
الْكِبَـرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّـهُمَآ اُفٍّ وَّلَا
تَنْـهَرْهُمَا وَقُلْ لَّـهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًا (23-بنی اسرائیل) |
اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور
ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو
پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔ |
حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے ماؤں کی نافرمانی کرنا اور لڑکیوں کو زندہ گاڑنا تمہارے لئے حرام قرار دیا ہے ، بخیلی اور گدائی کو تم پر حرام کیا ہے اور زیادہ سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے |
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو گالی دنیا کبیرہ گناہ ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔ فرمایا ہاں، دوسرے آدمی کے ماں اور باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ۔ |
No comments:
Post a Comment