Islamic Education

Sunday, October 3, 2021

امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ

 امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ

Amir al-mu'minin Hazrat Ali (as)
Amir al-mu'minin Hazrat Ali (as)


 مقتدائے جملہ اولیاء و اصفياء، غريق بحر بلا، داماد حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، چوتھے خلیفہ راشد ابوتراب حضرت سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللّٰہ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ اہل علم طریقت کے امام و پیشوا ہیں ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کا نام علی ہے ۔ آپ ان کی کنیت ابوتراب اور ابوالحسن ہے اور لقب اسد اللہ ہے ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کا نام علی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کے والد بزرگوار کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا بنت اسد ہے ۔ آپ ان کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی اس لئے آپ رضی اللّٰہ عنہ کو مولود کعبہ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی پرورش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی اور کاشانہ نبوی میں پرورش پانے کی وجہ سے آپ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا بہترین نمونہ ہیں ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوقت ہجرت حضرت سیدنا علی المرتضی کو اپنے بستر پر لٹایا تا کہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر سکیں ۔ حضرت سیدنا على المرتضی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ غزوات میں شمولیت اختیار کی اور اپنی بہادری کے بے مثال جوہر دکھائے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی اسی شجاعت کی بنا پر آپ کو اسد اللہ کا لقب عطا فرمایا ۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لاڈلی صاجزادی حضرت سیده فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا سے نکاح کے لئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغام بھیجا مگر حضور نبی کریم نے اپنے ان دونوں صحابہ کرام کو یہی جواب دیا کہ مجھے حکم االہی کا انتظار ہے ۔ 

ایک دن حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ محو گفتگو تھے اور گفتگو کا موضوع تھا کہ ہمارے سمیت بے شمار شرفاء نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا سے نکاح کی خواہش ظاہر کی ہے لیکن ہم میں سے کسی کو اس بارے میں مثبت جواب نہیں ملا ایک علی ( رضی اللّٰہ عنہ) رہ گئے ہیں لیکن وہ اپنی تنگدستی کی وجہ سے خاموش ہیں ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تھا کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا سے نکاح کی خواہش کر سکیں ۔ چنانچہ یہ حضرات اسی وقت حضرت سیدنا على المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے گھر تشریف لے گئے تو انہیں پتہ چلا کہ حضرت سیدنا على رضی اللّٰہ عنہ اس وقت ایک دوست کے باغ کو پانی دینے کے لئے گئے ہوئے تھے ۔ جب یہ حضرات اس جگہ پہنچے تو انہوں نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی دختر نیک اختر کا رشته مانگیں انہیں یقین ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانثاری اور شرافت کی بناء پر انہیں اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ دے دیں گے ۔ 

حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے ان اکابر صحابہ کی تحریک پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرمایا اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ سے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر دینے کے لیے کیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کیا کہ اس وقت میرے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک ذرہ موجود ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضی سے فرمایا کہ تم جاؤ اور اپنی ذرہ فروخت کر دو اور اس سے جو رقم ملے وہ لے کر میرے پاس آجانا ۔ 

حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے ذرہ لی اور مدینہ منورہ کے بازار میں چلے گئے ۔ آپ اپنی ذرہ لے کر بازار میں کھڑے تھے کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کا گزر وہاں سے ہوا ۔ انہوں نے آپ سے یہاں کھڑے ہونے کی وجہ دریافت کی تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے بتایا کہ وہ یہاں اپنی ذره فروخت کرنے کے لئے کھڑے ہیں ۔ چنانچہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ نے وہ ذرہ چار سو درہم میں خرید لی اور پھر وہ زره حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کو تحفه دے دیا ۔ حضرت سیدنا علی المرتضی نے واپس جا کر تمام ماجرا حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کا یہ ایثار دیکھ کر ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور ذرہ کی رقم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس سے حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے لئے ضروری اشیاء خرید فرمائیں ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ جب تمام اشیاء خرید کر لے آئے تو حضور نبی کریم نے خود حضرت سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا کا نکاح پڑھایا ۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کا نکاح 1ھجری میں ہوا ۔ 

حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کا پیغام سنا تو آپ پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جو نزول وحی کے وقت ہوتی تھی ۔ پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا : اللہ تعالی نے مجھے بذریعہ وحی مطلع کیا ہے کہ میں اپنی لاڈلی بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا کا نکاح سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے کر دوں ۔ پھر حضور نبی کریم نے مجھے حکم دیا کہ تمام مہاجرین و انصار میں منادی کروا دو کہ وہ مسجد نبوی سے تشریف لائیں ۔ چنانچہ مہاجرین و انصار کی ایک کثیر تعداد مسجد نبوی تشریف لائی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دختر نیک اختر حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا نکاح حضرت سیدنا علی المرتضی سے کر دیا ۔ 

روایات میں آتا ہے کہ حضرت سیدہ فاطمه الزہرا کی رخصتی غزوہ بدر کے بعد یعنی نکاح کے قریباً سات یا آٹھ ماہ بعد ہوئی ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضی سے فرمایا کہ وہ تمام مہاجرین و انصار کو اپنے ولیمہ میں شرکت کی دعوت دیں ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللّٰہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ کی دعوت ولیمہ میں چھوہارے اور گوشت سے کھانا تیار کروایا اور اس دعوت ولیمہ سے بہترین دعوت ولیمہ کوئی نہ تھی ۔ 

حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا کی رخصتی کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور اپنی دختر نیک اختر حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا سے فرمایا : اے فاطمہ ( رضی اللّٰہ عنہا) ! میں نے تمہاری شادی خاندان کے سب سے بہتر شخص سے کی ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو دعا دیتے ہوئے فرمایا : 

الہی ! ان دونوں میں محبت پیدا فرما اور انہیں ان کی اولاد کی برکت عطا فرمانا اور ان کو خوش نصیب بنانا ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمانا اور ان کی اولاد کو ترقی اور پاکیزگی عطا فرمانا ۔

حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے انصار و مہاجرین میں بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے اپنے تمام صحابہ کرام کے درمیان مساوات اخوت کا رشتہ قائم کیا لیکن میرے ساتھ ایا کچھ نہیں کیا ؟ حضور نبی کریم نے فرمایا : اے علی ( رضی اللّٰہ عنہ) ! تم میرے دنیا اور آخرت کے بھائی ہو ۔ 

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کا لباس نہایت معمولی ہوتا تھا ۔ آپ کے پاس اوڑھنے کے لئے صرف ایک چادر تھی جس سے سر چھپاتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے اور اگر پاؤں ڈھانکتے تھے تو سرننگا ہو جاتا تھا ۔ مدینہ منورہ کے ایک معمولی سے مکان میں رہائش پذیر تھے ۔ عالی شان محلوں سے آپ کو شدید نفرت تھی یہی وجہ ہے کہ جب آپ کوفہ تشریف لے گئے تو دارالامارات میں قیام کرنے کی بجائے ایک میدان میں خیمے لگا کر اس میں قیام پذیر ہوئے ۔ آپ کو نیند آتی تو بلا تکلف فرش خاک پر لیٹ جاتے تھے ۔

 حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ہمیشہ دنیا سے بے اعتنائی برتتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ  کے پاس کبھی مال اکٹھا نہ ہوا ۔ آپ اکثر و بیشتر رات کی تنہائیوں میں دنیا کو یوں مخاطب ہوتے تھے : اے دنیا ! کیا تو میرے سامنے بن سنور کر آتی ہے اور مجھ پر ڈورے ڈالتی ہے ؟ میں تجھے ہمیشہ کے لئے خود سے جدا کر چکا ہوں اور تیری محفل حقیر ہے اور تیری ہلاکت آسان ہے ۔ 

حضرت سیدنا على رضی اللّٰہ عنہ شب بیدار اور عبادت گزار تھے ۔ آپ کو عبادت میں اس قدر خشوع وخضوع حاصل تھا کہ آپ اپنی نماز کے کھڑے ہوتے تو اپنے اردگرد کی کچھ خبر نہ رہتی یہاں تک کہ جسم پر ہونے والی کسی واردات کی خبر نہ ہوتی تھی ۔ ایک مرتبہ آپ کو تیر لگ گیا جو جسم میں اتنی گہرائی تک چلا گیا کہ نکالنا مشکل ہو گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوں تو تم اس تیر کو نکال لینا ۔ چنانچہ آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور اس تیر کو نکال دیا گیا یہاں تک کہ آپ نے اف تک نہ کی

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے وصال سے قبل حضرت سیدنا على رضی اللّٰہ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے علی ( رضی اللّٰہ عنہ ) ! آج کے بعد تم مجھے حوض کوثر پر ملو گے اور میرے بعد تم پر بے شمار مصائب نازل ہوں گے تم ان مصائب کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرنا اور جس وقت لوگ دنیا اختیار کریں تم آخرت اختیار کرنا ۔

 حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام کے درمیان اختلافات کی خبریں اور روایتیں بے بنیاد ہیں ۔ صحیح روایات سے یہ بات پایہ سند کو پہنچتی ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت کو مقدم جانا اور ان کے دست حق پر بیعت کی ۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جو مجلس شورٰی قائم کی حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام اس کے رکن تھے اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ تمام اہم امور میں آپ نے مشورہ کرتے تھے ۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے وصال کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے ۔ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے آپ خلافت کے دست حق پر بیعت کی ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق نے آپ ان کو مجلس شوریٰ کا رکن برقرار رکھا اور آپ سے ہر اہم معاملہ میں رائے طلب کی ۔ بعدازاں جب حضرت سیدنا عمر فاروق نے محکمہ افتاء قائم کیا تو آپ کو مفتی اعظم کا عہدہ دیا اور آپ کے علاوہ کسی کو فتوی جاری کرنے کا اختیار نہ دیا ۔ حضرت سیدنا عمر فاروق نے حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت سیدنا علی المرتضیٰ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت زبیر بن العوام، حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضوان اللہ علیہم کا نام بطور خلیفہ نامزد کیا تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دست حق پر بیعت کر لی جس کے بعد بقیہ تمام حضرات نے بھی حضرت سیدنا عثمان غنی کے دست حق پر بیعت کر لی ۔ حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام کو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ سے بے حد عقیدت تھی۔

حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کو ہر مشکل وقت میں اپنے بہترین مشوروں سے نوازا ۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ بھی آپ کی رائے کو فوقیت دیتے تھے ۔ جس وقت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کو شہید کیا گیا تو حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے صاحبزادوں حضرت سیدنا امام حسن اور حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام جو کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کی حفاظت پر مامور تھے انہیں جھڑکتے ہوئے سخت سست کہا کہ تم ان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ۔ 

حضرت سیدنا عثمان غنی خان کی شہادت کے بعد اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اصرار پر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ نے منصب خلافت قبول فرمایا ۔ جس وقت حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ منصب خلافت پر فائز ہوۓ وہ دور شدید مصائب کا دور تھا ۔ مسلمان گروہوں میں بٹ چکے تھے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے بھی خلافت کا اعلان کر دیا تھا اور کئی اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ان کے ہاتھ پر بھی بیعت کر چکے تھے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام کے لئے جن مصائب کی نشاندہی فرمائی تھی وہ مصاب اب سامنے آ چکے تھے ۔ آپ کے دور خلافت کے دوران غلط فہمی کی بنا پر جنگ جمل کا واقعہ پیش آیا جس میں دونوں جانب سے بے شمار مسلمان شہید ہوئے ۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ نے مدینہ کو خیر باد کہا اور کوفہ روانہ ہو گئے اور کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا ۔ کوفہ پہنچنے کے بعد جنگ صفین کا واقعہ پیش آیا جس میں ایک مرتبہ پھر بھاری تعداد میں مسلمانوں کا جانی نقصان ہوا ۔ بعدازاں حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام اور حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ۔ معاہدے کے مطابق حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اپنے زیر تسلط علاقہ پر اور حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اپنے زیر تسلط علاقے پر خلیفہ مقرر ہوئے ۔ اس معاہدہ کے بعد ایک مرتبہ پھر فتنوں نے سر اٹھایا اور خارجیوں کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ حضرت سیدنا علی المرتضی علیہ السلام نے ان فتنوں کی سرکوبی فرمائی اور اس دوران موقع پا کر ایک خارجی ابن ملجم نے بوقت نماز فجر آپ کو شہید کر دیا ۔ 

حضرت سیدنا علی المرتضی خان نے 21 رمضان المبارک 40 ھجری کو اس جہان فانی سے کوچ فرمایا ۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کو جامع کوفہ میں سپرد خاک کیا گیا جہاں آپ کا مزار پاک آج بھی مرجع گاہ خلائق خاص و عام ہے۔

No comments:

Post a Comment