Islamic Education

Saturday, October 23, 2021

ذخیرہ اندوزی سے توبہ

 ذخیرہ اندوزی سے توبہ



 ذخیرہ اندوزی کو اسلام میں احتکار کہا جاتا ہے ۔ اس کا لفظی مطلب ظلم ہے لیکن شرعی اصطلاح میں ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ کسی استعمال ہونے والی چیز کی فروخت کو اس غرض سے روک لیا جاۓ کہ وہ مہنگی ہو جاۓ اور جب اس کی قلت ہو جاۓ تو منہ مانگے داموں پر فروخت کی جاۓ چونکہ لوگوں کو اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو وہ مجبورا مہنگے داموں پر خریدنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ شریعت میں یہ جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا حرام اور جرم ہے لیکن یاد رہے کہ فروخت کی غرض سے جمع شدہ سٹاک کو احتکار نہیں کہا جاتا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی سے منع فرمایا اور اس کے متعلق آپ کی احادیث مند رجہ ذیل ہیں ۔

 و عـن ابـن عـمـر قـال قـال سول الله صلى الله عليه وسلم احتـكـر طـعـاماً أربعين يوما یريد به الغلاء فقد برء من الله و برئ الله منه

ترجمہ؛ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوشخص چالیس دن غلے کا ذخیرہ کرتا ہے اور اس کے مہنگا ہونے کا انتظار کرتا ہے وہ شخص حق تعالی سے دور ہوا اور اللہ اس سے بیزار ہوا ۔

اس حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ احتکار وہ ہے جس میں نرخوں کی گرانی مطلوب ہو اور جو شخص اس نیت سے ذخیرہ اندوزی کرے وہ محتکر ہوگا اورمحتکر اللہ کی رحمت سے دور ہو جا تا ہے ۔

عن معمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من احتكر فهوا خاطی

ترجمہ؛ حضرت معمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ احتکار یعنی ذخیرہ اندوزی کرنے والا گنہگار ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی رو سے ذخیرہ اندوزی گناہ ہے کیونکہ اجناس خوردنی کا استعمال زندگی کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔ اس لئے اگر کوئی شخص زرعی اجناس مہنگا کرنے کی غرض سے خرید کر رکھ لے تو اس سے دوسرے لوگوں کا بنیادی حق غصب ہوگا جس کی بناء پر اسے گناہ قرار دیا گیا ہے ۔

- عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال الجالب مرزوق والمحتكر ملعون۔

ترجمہ؛ حضرت عمر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ فرمایا کہ غلہ لانے والا روزی دیا جاۓ گا اور احتکار کر نے والا ملعون ہے۔

اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تاجر نیک نیتی سے تجارت کرے تو اس کے رزق میں اضافہ ہوتا چلا جا تا ہے اور اگر وہ ذخیرہ کر نے والا ہو تو اس پر خدا کی لعنت پڑ جاتی ہے۔ 

وعـن انـس قـال غلا السعر على عهد رسول الله صلى عليـه وسـلـم فقالوا يا رسول الله سعر لنا فقال النبي صلى الله عليه وسلم إن الله هو المسعر القابض البـاسـط الرازق و إنى لارجوا ان القى ربـي وليـس احد منكم يطلبني بمظلمة بدم ولا مال ( ترمذی ۔ ابوداؤد )

ترجمہ؛ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں غلہ مہنگا ہوگیا ۔ صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! بھاؤ مقرر کر دیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ ہی بھاؤ مقرر کرنے والا ہے تنگ اور فراخ کرنے والا ہے اور رزق دینے والا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے رب کو ملوں گا اس حال میں کہ تم میں سے کوئی بھی مجھ سے کسی خون یا مال کا مطالبہ نہیں کرے گا ۔

لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی کا علاج اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنا ہے لیکن اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ اشیاء کی کمی یا کثرت کا کنٹرول اللہ کے پاس ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جس فصل پر غلہ اللہ کی رحمت سے زیادہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی کثرت کے باعث اس کے نرخ کم ہو جاتے ہیں اور اگر کم ہو تو نرخ زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ قیمتیں مقرر کرنے سے خریداری اور فروخت کر نے والے کو دونوں صورتوں میں نقصان ہو سکتا ہے ۔ اگر تاجروں کو ایک چیز زیادہ قیمت سے خریدنا پڑے اور قیمت مقرر ہونے کی وجہ سے کم قیمت پر فروخت کر نا پڑے تو تاجر پر ظلم ہوگا اور اگر تاجر نے بہت کم قیمت خریدی ہو اور مقررہ قیمت بہت زیادہ ہو تو اس سے خریدار پرظلم ہوگا ۔ اس صورت کے پیش نظر اللہ کے رسول نے تجارت میں قیمتیں مقرر کرنے سے منع کر دیا ہے بلکہ توکل کا درس دیا ہے جس کے تحت تاجر کو چاہیے کہ کم منافع لے ۔

وعـن مـعـاذ قـال سمعتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقـول بـئـس العبد المحتكر إن ارخـص الله الاسعار حزن و إن اغلاها فرح۔

 ترجمہ؛ حضرت معاذ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ احتکار کرنے والا بندہ برا ہے اگر اللہ تعالی بھاؤ ستا کر دے تو وہ بہت غمگین ہوتا ہے اور اگر مگین مہنگا کر دے تو خوش ہوتا ہے ۔

اس حدیث میں ذخیرہ اندوز کا مزاج بیان کیا گیا ہے کہ ذخیرہ اندوز گرانی سے خوش ھوتا ہے اور بھاؤ ستا ہونے سے غمگین ہوتا ہے ۔اگر اللہ پر استقامت ایمان اس درجے تک ھو که نفع نقصان تو اللہ کے ہاتھ میں ہے تو پھر انسان ہرحال میں اللہ پر راضی رہتا ہے ۔

عـن عـمـر بـن الخـطـاب قـال سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسـلـم يـقـول مـن احـتـكـر على الـمـسـلـمـيـن طـعـامهم ضـربـه الله بالجذام والافلاس۔

ترجمہ؛ حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے مسلمانوں کے غلہ کو جو بند کر کے بیچتا ہے ۔ اللہ تعالی اس کو جذام اور افلاس پہنچاتا ہے ۔

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ ذخیرہ کر کے دوسروں کو بھوکا مارنے والوں کے لئے جذام اور افلاس میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے ۔ انسان بظاہر تو ذخیرہ اندوزی سے فائدہ اٹھانے کی سوچتا ہے مگر ایسے لوگوں کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ایسا نقصان پہنچتا ہے کہ وہ اپنے کیے کی سزا غربت افلاس اور بیماریوں کی صورت میں پاتے ہیں ۔

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اقوال سے یہ بالکل عیاں ہے کہ اسلام میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے لیکن اس کے باوجود تاجر حضرات اس حرکت سے باز نہیں آتے اور اشیاء کو ذخیرہ کر کے قلت کے انتظار میں رہتے ہیں اور موقع پا کر منہ مانگی قیمت وصول کر تے چنانچہ ایسے حضرات کو اس فعل سے توبہ کر لینی چاہیے ۔ 

ایک دفعہ ایک شخص نے اجناس خوردنی کی تجارت شروع کی کچھ عرصہ کے بعد شیطان نے اس کے ذہن میں ذخیرہ اندوزی کی لعنت کو سوار کر دیا ۔ چنانچہ اس نے ذخیرہ اندوزی شروع کردی ۔فصل کے موقع پر زمینداروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ سستے داموں خرید لیتا اور جب ان اجناس کی قیمت بڑھ جاتی تو منہ مانگے داموں فروخت کرتا عرصہ دراز تک یونہی کرتا رہا حتی اس کے پاس ان گنت سرمایہ جمع ہو گیا۔

 مگر تھوڑے عرصے کے بعد حالات نے رخ بدلا اور تجارت میں اسے خسارہ شروع ہو گیا جو سودا بھی کرتا اس میں نقصان اٹھاتا حتی کہ جو دولت ذخیرہ اندوزی سے کمائی تھی وہ اسی راستے نکل گئی اور خود بیمار ہو گیا اور بیماری نے اس حد تک لاغر کر دیا کہ بھیک مانگلنے تک نوبت پہنچ گئی ۔ لوگ اس کی حالت زار پر بڑے حیران ہوئے کہ یہ شخص اس علاقے کی ایک معزز شخصیت شمار کیا جاتا تھا جبکہ آج یہ بھکاری ہے اور ہر کوئی نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگا ۔

 ایک روز وہ ایک مسجد کی سٹرھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگ رہا تھا کہ ایک اللہ کے بندے کا گزر ہوا اس نے نظر باطن سے اس کا حال معلوم کیا اور اسے کہا کہ دولت ذخیرہ اندوزی میں نہیں بلکہ امارت اور غربت اللہ کی طرف سے ہے تو نے سوچا تھا کہ ذخیرہ اندوزی ہی سے دولت آسکتی ہے ۔ آج تیری دولت کہاں ہے اور تو بے یارومددگار ہو کر اللہ کے نام پر مانگ رہا ہے ۔اگر تو اس وقت بھی اللہ سے راہ راست اور جائز طریقے سے مانگتا تو وہ تمہیں ہر صورت تیرے مقدر کا رزق دیتا ۔ اب تو سچے دل سے اپنی سابقہ زندگی پر توبہ کر بہتر ہو جاۓ گا تاجر اس کے کہنے پر مسجد میں جا کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوا اور بڑی دیر تک روتا رہا ۔ حتی کہ تائب ہو کر عبادت میں محو ہو گیا ۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کی سختی معاف ہوگئی اور اس کی گزراوقات کا اللہ نے بہتر ذریعہ بنا دیا ۔

No comments:

Post a Comment