اہل کفار، کفر سے توبہ کر لو
سب سے بڑا گناہ کفر ہے ۔ کفر کیا ہے ؟ انکار خدا کفر ہے، انکار رسول کفر ہے، انکار قرآن کفر ہے، انکار آخرت کفر ہے، انکار ملائکہ کفر ہے۔ جب انسان کفر میں مبتلا تھا تو خدا نے انسان کی حالت زار پر رحم کھایا اور اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی بنایا ۔ پھر رسول نے تجھے بتایا کہ خدا کو ایک مان ‘ پھر بن دیکھے تسلیم کر کے اس کی حمد و ثنا میں گم ہو جا ۔ پھر اللہ کے رسول نے تجھے مقام رسالت کا راز بتایا ۔ تجھے قرآن جیسی عظیم کتاب کا عطیہ دلوایا ۔ تیرے سامنے موت اور آخرت کا عقدہ کھولا ۔ تجھے خدا کی پیاری مخلوق ملائکہ سے متعارف کروایا اور تجھے دعوت دی کہ اپنے وہم و گمان کو چھوڑ کر ایک خدا کا پجاری بن جا اور صاحب ایمان ہو جا ۔ کچھ نے مان لیا اور دولت ایمان کو بصد عجز و نیاز قبول کیا لیکن اہل کفر ! تیری عقل نے تجھے دھو کہ دیا اور آج تک ایمان و اسلام سے محروم ہے ۔اگرچہ تو نے سمندر کی تہوں کو چیر ڈالا ہے زمین کے خزانوں کو کھول دیا ہے ۔ کوہ و دشت کو تو نے زرنگین کر ڈالا ہے ۔ سالوں کے فاصلوں کو چشم زدن کردیا ہے۔
گویا کہ تن آسانی کے لئے تو رات دن مصروف کار ہے لیکن میرے دوست کار جہاں کے ساتھ ساتھ زیور ایمان سے بھی آراستہ ہونا چاہیے تھا اور اس حقیر دنیا کے بدلے میں آخرت کا سودا نہ کرو ۔
اے دنیا کے بھٹکے ہوۓ انسانو ! کفر کی وادیوں میں جکڑے ہوۓ ہو ؟ کیوں شیطان کے مکر وفریب میں مبتلا ہو ۔ یاد رکھو تمہاری فلاح کفر میں نہیں تمہاری فلاح قبول اسلام میں ہے ۔ تمہاری فلاح ایمان میں ہے تمہاری عاقبت کا سودا قرآن میں ہے ، تمہاری نجات غلامی مصطفی میں ہے ۔ نیابت خدا کا راز اتباع کتاب وسنت میں ہے ۔ پھر میرے دوست ! جب تو یہ جان گیا کہ خدا رسول اور قرآن کو مانے بغیر چھٹکارا نہیں تو پھر توبہ میں دیر کیسی ؟ آج ہی خدا کے حضور سجدہ ریز ہو اور اپنے من سے ندامت کے آنسو بہا کر کفر کو چھوڑ دے ۔ کفر ایمان کی ضد ہے اور ایمان سے وہی شخص محروم رہتا ہے جو شخص کفر سے توبہ کر کے اللہ کی طرف نہیں آتا ۔
کفر سراسر جہالت ہے کیونکہ انسان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو نہیں پہچانتا ۔ اسی لئے ارشاد باری تعالی ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کر تے ہو حالانکہ تم کچھ نہ تھے ۔ اس نے تمہیں زندگی عطا کی، پھر وہی تم کو مارے گا، اور وہی تم کو پھر زندگی عطا کرے گا اور بالآخر تم اس کی طرف لوٹاۓ جاؤ گے، تو اللہ کا یہ فرمان کا فروں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ انسان جب ہر لحاظ سے زندگی اور موت کے لئے اللہ کا محتاج ہے تو وہ پھر اللہ کا انکار کیوں کرے لیکن یہ نادان پھر بھی تو بہ کر کے اس کی طرف رجوع نہیں کرتا ۔ کافر خدا کی ہدایت سے محروم ہے اور قرآن میں انہیں بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے ۔ بے شک اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا ۔ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ۔ پھر کفر کے بارے میں فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ان کے لئے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے تو قرآن آج بھی اہل کفر کو دعوت حق دیتا ہے کہ کفر سے توبہ کر کے راہ حق کی طرف آجاؤ کیونکہ کفر کا انجام بخیر، توبہ ہی میں ہے ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک علاقے میں شمعون نامی ایک شخص رہتا تھا ۔ ایک بار وہ بیمار پڑ گیا اور قریب المرگ ہو گیا ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی بیماری کا پتہ چلا تو آپ اس کے پاس پہنچے آپ نے دیکھا کہ آگ اس کے پاس سلگ رہی ہے اور وہ آنگ کے دھوئیں سے کالا پڑ گیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ خدا سے ڈر اور مسلمان ہو جا ۔ ساری عمر تو نے آگ اور دھوئیں کی پرستش کی ۔ اب دین اسلام کو آزما ۔ شاید خدا تم پر رحم فرماۓ ۔ شمعون بولا کہ دین اسلام کی صداقت کی کوئی نشانی دکھایۓ ۔ آپ نے فرمایا دیکھ تو نے ستر برس آگ کی پوجا کی اور میں نے ایک روز بھی اس کو نہیں پوجا ۔ اب میں اور تم دونوں اس میں اپنا اپنا ہاتھ ڈالتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ آگ کس کو جلاتی ہے اور کس کو چھوڑتی ہے ۔ چا ہئے تو یہ کہ تو اس کا بچاری ہے اس لئے وہ تجھے نہ جلاۓ اور میں اس کا پجاری نہیں اس لئے وہ مجھے جلا دے ۔ مگر مجھے اپنے اللہ سے امید ہے کہ آگ مجھے ہرگز نہ ملائے گی ۔ اگر تم میرے خدا کی قدرت اور اس آگ کی کمزوری کو دیکھنا چاہتے ہو تو لو دیکھ لو ۔ یہ کہ کر آپ نے اپنا ہاتھ جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا اور دیر تک اس میں ڈالے رکھا ۔ شمعون نے دیکھا کہ آپ کا ہاتھ بالکل نہیں جلا ۔ یہ منظر دیکھ کر شمعون بے قرار ہوا اور خدا کی محبت کا نور اس کی پیشانی سے چمکنے لگا اور عرض کرنے لگا کہ اب تک پورے ستر برس میں نے اس آگ کی پوجا کی ہے اور اب چند سانس باقی ہیں تو اس میں میں آپ کے خدا کی کیا عبادت کر سکتا ہوں ؟
حضرت حسن نے فرمایا تو اس کی فکر نہ کر کلمہ پڑھ لے تو میرا خدا تجھ سے فوراً راضی ہو جاۓ گا اور پچھلے ستر برس کی آگ کی پرستش معاف فرما دے گا ۔ شمعون نے کہا اگر آپ ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ حق تعالی مجھے عذاب نہ دے گا تو میں ایمان لے آ تا ہوں ۔ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اقرار نامہ لکھ دیا اور شمعون کو دے دیا ۔ شمعون نے وہ اقرار نامہ لیا اورکلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا اور پھر حضرت حسن کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو غسل دینے کے بعد آپ خود مجھے قبر میں اتارنا اور یہ اقرار نامہ میرے ہاتھ میں رکھنا تاکہ کل قیامت کے دن میں یہ دکھا کر عذاب سے بچ جاؤں ۔ پھر کلمہ شہادت پڑھا اور شمعون مر گیا ۔ حضرت حسن نے اس کی وصیت کے مطابق کیا اور بہت سے لوگوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔ اس رات حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ مطلق نہ مطلق نہ سوۓ اور ساری رات نماز پڑھتے رہے اور اپنے دل میں کہتے رہے کہ میں نے کیا کیا ۔ میں تو خود اپنی جائداد پر قدرت نہیں رکھتا پھر خدا کی ملک پر میں نے کیسے مہر کر دی اور اقرار نامہ لکھ دیا۔
اس خیال میں سو گئے تو شمعون کو دیکھا کہ تاج سر پر رکھے اور نورانی لباس پہنے بہشت کے باغوں میں ٹہل رہا ہے ۔ حضرت حسن نے دریافت کیا کہ اے شمعون ! کیا حال ہے ؟ اس نے کہا آپ کیا پوچھتے ہیں حق تعالی نے مجھ پر بڑا فضل فرمایا ہے اور ایک بہت بڑے محل میں اتارا ہے اور اپنا دیدار بھی عطا فرمایا ہے اور جو جو مہربانیاں مجھ پر فرمائی ہیں مجھ میں طاقت نہیں کہ بیان کر سکوں ۔اے حسن ! اب آپ کے ذمہ کچھ بوجھ نہ رہا ۔ آپ کا اقرار نامہ بڑے کام آیا ۔ اب یہ لیجئے اپنا اقرار نامہ کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں ۔ یہ کہہ کر وہ اقرار نامہ اس نے حضرت حسن بصری کو دے دیا ۔ حضرت حسن بصری جب بیدار ہوۓ تو وہ اقرار نامی ان کے ہاتھ میں تھا ۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ جہاد کو گئے ۔ اس میں آپ ایک کافر سے جنگ کر رہے تھے کہ نماز کا وقت قریب آ گیا ۔ آپ نے کافر سے مہلت چاہی اور نماز ادا کی ۔ پھر جب اس کافر کی عبادت کا وقت ہوا تو اس نے بھی مہلت چاہی ۔ جب وہ بت کی عبادت کے واسطے متوجہ ہوا تو عبداللہ بن مبارک نے سوچا کہ اس وقت اس پر حملہ کر دوں تو فتح پالوں گا، چنانچہ آپ نے تلوار نکالی اور اس پر حملہ کرنے کی خاطر اس کے قریب پہنچے ہی تھے کہ ایک آواز سنی کہ اے عبداللہ !
"أوفوا بالعهد إن العهد كان مسولا"
یعنی ؛ عہد پورا کرو کہ اس سے سوال کیے جاؤ گے۔
عبداللہ بن مبارک رونے لگے اس کافر نے جوعبداللہ بن مبارک کو دیکھا تو تلوار کھینچے ہوۓ رو رہے ہیں تو وجہ پوچھی آپ نے سارا قصہ سنایا تو اس کافر نے ایک چیخ ماری اور کہا بڑے شرم کی بات ہے کہ ایسے خدا کی نافرمانی کروں جو دشمن کی خاطر اپنے دوست پر عتاب کر رہا ہے اور پھر مسلمان ہو گیا ۔
حضرت عبدالواحد بن زید چشتی نے ایک مرتبہ فر مایا کہ ہم لوگ ایک مرتبہ ایک کشتی میں سوار ہو کر جارہے تھے کہ ہوا کی گردش نے ہماری کشتی کو ایک جزیرے میں پہنچا دیا ۔ ہم نے وہاں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کفر میں مبتلا ہے اور ایک بت کی پوجا کر رہا ہے ۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کس کی پوجا کر تے ہو ؟
اس نے بت کی طرف اشارہ کیا ۔ ہم نے کہا تیرا معبود خود تیرا بنایا ہوا ہے اور ہمارا معبود وہ ہے جس نے ہر ایک کو بنایا ہے اور جو تو نے اپنے ہاتھ سے بت بنایا ہے وہ پوجنے کے لائق نہیں ہے ۔ اس نے کہا تم کس کی پرستش کرتے ہو ہم نے کہا اس پاک ذات کی جس کا عرش آسمان کے اوپر ہے ۔ اس کی گرفت زمین پر ہے ۔اس کی عظمت اور بڑائی سب سے بالاتر ہے ۔ کہنے لگا تمہیں اس پاک ذات کا علم کس طرح ہوا ؟ ہم نے کہا اس نے ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( قاصد ) ہمارے پاس بھیجا جو بہت کریم اور شریف تھا ۔ اس رسول نے ہمیں یہ سب باتیں بتائیں ۔ اس نے کہا وہ رسول کہاں ہیں ؟ ہم نے کہا کہ اس نے جب پیغام پہنچا دیا اور اپنا حق پورا کر دیا تو اس مالک نے اس کو اپنے پاس بلا لیا تا کہ اس کے پیغام پہنچانے اور اس کو اچھی طرح پورا کر دینے کا صلہ وانعام عطا فرماۓ ۔ اس نے کہا کہ اس رسول نے تمہارے پاس کوئی علامت چھوڑی ہے ؟ ہم نے کہا اس مالک کی پاک کلام ہمارے پاس چھوڑی ہے ۔ اس نے کہا مجھے وہ کتاب دکھاؤ ۔ ہم نے قرآن پاک لا کر اس کے سامنے رکھا ۔ اس نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں تم اس میں سے مجھے کچھ سناؤ ۔ ہم نے ایک سورت سنائی وہ سنتے ہوۓ روتا رہا یہاں تک کہ وہ سورت پوری ہوگئی ۔
اس نے کہا اس پاک کلام والے کا حق یہی ہے کہ اس کی نافرمانی نہ کی جاۓ ۔ اس کے بعد وہ کفر سے تو بہ کر کے مسلمان ہو گیا ہم نے اسے اسلام کے ارکان اور احکام بتاۓ اور چند سورتیں قرآن پاک کی سکھائیں جب رات ہوئی عشاء کی نماز پڑھ کر ہم سونے لگے تو اس نے پوچھا کہ تمہارا معبود بھی رات کو سوتا ہے ؟ ہم نے کہا وہ پاک ذات حی قیوم ہے ۔ وہ نہ سوتا ہے نہ اس کو اونگھ آتی ہے۔
وہ کہنے لگا تم کس قد ر نالائق بندے ہو کہ آقا تو جا گتا ہے اور تم سو جاؤ ۔ ہمیں اس بات سے بڑی حیرت ہوئی ۔ جب ہم اس جزیرہ سے واپس ہونے لگے تو وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ ہی لے چلو تا کہ میں دین کی باتیں سکھوں ہم نے اپنے ساتھ لے لیا جب ہم شهر عبادان میں پہنچے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ شخص نومسلم ہے اس کے لئے کچھ معاش کا فکر بھی چاہئے ۔ ہم نے کچھ درہم جمع کیے اور اس کو دینے لگے ۔
اس نے پوچھا یہ کیا ہے ۔ ہم نے کہا کچھ درہم ہیں ۔ان کو تم اپنے خرچ میں لے آنا ۔ کہنے لگا لا الہ الا اللہ ! تم لوگوں نے مجھے ایسا راستہ دکھایا، جس پر خود بھی نہیں چلتے ۔ میں ایک جزیرہ میں تھا ایک بت کی پرستش کرتا تھا ۔ خداۓ پاک کی پرستش بھی نہ کرتا تھا اس نے اس حالت میں بھی مجھے ضائع اور ہلاک نہیں کیا ۔ حالانکہ میں اس کو جانتا بھی نہ تھا ۔ پس وہ اس وقت مجھے کیونکر ضائع کر دے گا جبکہ میں اس کو پہچانتا بھی ہوں ( اس کی عبادت بھی کرتا ہوں ) تین دن کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا آخری وقت ہے موت کے قریب ہے ۔ ہم اس کے پاس گئے ۔اس سے پو چھا کہ تیری کوئی حاجت ہو تو بتا ۔
کہنے لگا میری تمام حاجتیں اس پاک ذات نے پوری کر دیں جس نے تم لوگوں کو جزیرے میں میری ہدایت کے لئے بھیجا تھا ۔ شیخ عبدالواحد فرماتے ہیں کہ مجھ پر دفعتہً نیند کا غلبہ ہوا ۔ میں وہیں سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا ایک نہایت سرسبز شاداب باغ ہے ۔ اس میں ایک نہایت نفیس قبہ بنا ہوا ہے ۔ اس میں ایک تخت بچھا ہوا ہے ۔ اس تخت پر ایک نہایت حسین لڑکی کہ اس جیسی خوبصورت عورت کبھی کسی نے نہ دیکھی ہوگی, یہ کہہ رہی ہے خدا کے واسطے اس کو جلدی بھیج دو ۔ اس کے اشتیاق میں میری بے قراری حد سے بڑھ گئی ۔ میری جو آنکھ کھلی تو اس نومسلم کی روح پرواز کر چکی تھی ۔ ہم نے اس کی تجہیز و تکفین کی اور دفن کر دیا ۔ جب رات ہوئی تو میں نے وہی باغ اور قبہ اور تخت پر وہ لڑ کی اس کے پاس دیکھی اور وہ یہ آیت شریفہ پڑھ رہا تھا
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَـرْتُـمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الـدَّارِ (24)
کہیں گے تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کی وجہ سے، پھر آخرت کا گھر کیا ہی اچھا ہے۔


No comments:
Post a Comment