Islamic Education

Tuesday, October 26, 2021

رشوت سے توبہ

 رشوت سے توبہ

Repentance from bribery
Repentance from bribery


 اسلام میں رشوت لینا اور دینا قطعاً ناجائز اور حرام ہے کیونکہ اسلام نے مال و دولت لینے اور دینے پر کچھ اخلاقی، شرعی اور قانونی پابندیاں عائد کی ہیں اور ایسے ذرائع سے حاصل کرنے کو حرام قرار دیا ہے جس سے انسانیت پر ظلم کا راستہ کھلتا ہو، لہذا رشوت اسلام میں شرعاً حرام اور قانونا جرم ہے ۔

وَلَا تَاْكُلُوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْـمِ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (188بقرہ۔)

اور ایک دوسرے کے مال آپس میں ناجائز طور پر نہ کھاؤ، اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ سے کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔

قرآن پاک کی یہ آیت رشوت کے حرام ہونے پر صریحاً دلالت کرتی ہے ۔مفسرین اور ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت سے واضح طور پر رشوت کی حرمت کا حکم ثابت ہوتا ہے ۔ اس آیت کے دو حصے ہیں ۔ پہلے میں ارشاد باری تعالی کے مطابق دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھانے میں بہت وسیع مفہوم پایا جا تا ہے کہ کسی صیح حقدار کا مال کوئی دوسرا شخص اسے ناجائز ذرائع سے حاصل کر کے تصرف میں نہ لاۓ جس سے حق دار کی حق تلفی ہو، جیسے چوری، بےایمانی، ملاوٹ، سمگلنگ، لوٹ کھسوٹ، ذخیرہ اندوزی اور رشوت وغیرہ۔ یہ تمام ناجائز ذرائع معاش باطل کے مفہوم میں آتے ہیں۔

 لیکن آیت کے دوسرے حصے میں حرمت رشوت کا مفہوم بالکل عیاں ہے جس میں ناجائز مال کھانے کا ایک اور ذریعہ بیان کیا گیا ہے کہ مال کو حکام تک نہ پہنچاؤ جس سے لوگوں کے مال کا ایک حصہ تم گناہ سے کھا جاؤ اورتم کو معلوم بھی ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مال حاکموں اور ججوں تک اس غرض سے پہنچا یا جائے کہ اس مال کے بدلے میں ان سے ناجائز مفاد حاصل کیا جاۓ اور حکام وہ مال لے کر اپنے فرائض منصبی کا ناجائز استعمال کرتے ہوۓ انصاف کے تقاضے پورے نہ کریں ۔ تو اس طرح حکام کا مال کو کھا جانا باطل طریقہ میں شامل ہے جو کہ گناہ ہے اور ایسے گناہ کو رشوت کہا جاتا ہے کیونکہ وہ کام جو حاکم نے پیسے لے کر کیا ہے اس کا عوضانہ تو وہ پہلے ہی تنخواہ کی صورت میں حکومت سے وصول کر رہا ہے تو پھر اسے کسی فریق سے ناجائز وصول کرنے اور ڈالی لینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ 

آیت کے اس حصے میں رشوت دینے کے لئے تُدْلُوْا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو إدلاء سے مشتق ہے ۔جس کے معنی ڈول ڈالنے اور کھینچنے کے ہیں ۔ اس اعتبار سے بطور استعارہ کسی چیز تک پہنچنے اور کسی شے کے ڈالنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ امام رازی نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوۓ دو وجوہات بیان کی ہیں ۔ پہلی وجہ رشوت ضرورت کی رسی ہے پس جس طرح پانی کا بھرا ہوا ڈول رسی کے ذریعہ دور سے کھینچ لیا جا تا ہے ۔ اسی طرح مقصد بعد کا بھی رشوت کے ذریعہ سے قریب ہو جاتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح حاکم کو رشوت دے کر بغیر کسی تاخیر کے فورا موافق فیصلہ کرایا لیا جا تا ہے اسی طرح ڈول بھی جب پانی نکالئے کے لئے کنویں میں ڈالا جاتا ہے تو نہایت تیزی کے ساتھ بغیر کسی تاخیر کے چلا جا تا ہے۔

 المختصر یہ کہ اس آیت سے واضح طور پر رشوت سے منع کیا گیا اور جو لوگ اس حکم کی خلاف ورزی کریں گویا انہوں نے اللہ کے احکام کی پروا نہیں کی تو ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں رشوت لینے اور دینے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

 اسلام سے قبل عرب کے قبائل میں اونچ نیچ کی بے حد تفریق تھی ان کے امراء اور رؤسا اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بلند اور اعلی تصور کر تے تھے اور اپنی دولت مندی کی بناء پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ قانون کی اس ناہمواری کے قائل تھے چنانچہ جب کوئی مقدمہ پیش آتا اور کاہنوں کے پاس فیصلہ کے لیے جاتا تو دولت مند اپنے ان کاہنوں اور قاضیوں کو کچھ نذرانہ یعنی رشوت پوشیدہ طور پر دے دیتے تاکہ حالات ان کی خواہش کے مطابق ہو جائیں ۔ ان کو حلوان کہا جا تا تھا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قطعاً حرام قرار دیا اور لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا۔

 اسلام سے پہلے عرب کے یہودیوں میں بھی رشوت کا رواج تھا ۔ قانون کی زد سے بچنے کے لئے علانیہ رشوت دے دیتے تھے ۔ اس طرح رشوت لینے سے قاضی لوگ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ کرتے اور تورات کے احکامات پر پردہ ڈال دیتے تھے چنانچہ تورات کے قوانین میں تحریف کا بڑا سبب یہی رشوت خوری تھی۔

 پھر یہود کا یہ طریقہ بھی تھا کہ وہ دنیا کی معمولی دولت کے لالچ میں آ کر اللہ کے احکامات میں ردو بدل کر دیتے اور اس کا معاوضہ وصول کرتے۔ ابن جریر نے کہا ہے کہ یہودی رئیس زادے اپنے علماء کو اس لئے رشوتیں دیتے تھے کہ جو احکامات تورات میں ہیں وہ عام لوگوں کو نہ بتائیں لیکن قرآن پاک نے ان کی اس ظاہر داری کا پول کھول دیا اور ایسی رشوت سے منع کر د یا۔ قرآن میں یہی بات اللہ تعالی نے یوں بیان فرمائی ہے۔

وَاٰمِنُـوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُـوْنُـوْآ اَوَّلَ كَافِـرٍ بِهٖ ۖ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا وَّاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ (41بقرہ۔)

اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے نازل کی، تصدیق کرتی ہے اس کی جو تمہارے پاس ہے، اور تم ہی سب سے پہلے اس کےمنکر نہ بنو، اور میری آیتو ں کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچو اور مجھ ہی سے ڈرو۔


اِنَّ الَّـذِيْنَ يَكْـتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَـرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰٓئِكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِىْ بُطُوْنِـهِـمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُـمُ اللّـٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّـيْـهِـمْ وَلَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِـيْـمٌ (174بقرہ۔)

بے شک جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے اور اس کے بدلے میں تھوڑا سا مول لیتے ہیں یہ لوگ اپنے پیٹوں میں نہیں کھاتے مگر آگ، اور اللہ ان سے قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ لوگوں کے ناجائز مفاد کی خاطر اللہ کے کلام کو پس پشت ڈالیں گے آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ کلام اللہ کے بعد احادیث کا درجہ ہے ۔احادیث کی رو سے بھی باطل ذرائع سے کسب معاش کی ممانعت کی گئی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی ذرائع میں رشوت لینے اور دینے کو بہت ہی برا فعل قرار دیا ہے بلکہ رشوت لینے دینے والے کے درمیان واسطہ بننے والے سب انہی زمروں میں آتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔

 لعنة الله على الراشي والمرتشي

 رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر اللہ تعالی کی لعنت برستی ہے ۔ ( ابن ماجہ ) 

 رشوت کا لین دین عام طور پر زرنقد میں ہو تا ہے ۔ بعض خوش فہم نقد نہیں لیتے ۔ کھانے پینے یا استعمال کی چیزیں لے لیتے ہیں ۔ انہیں بھی لعنتیوں کے زمرہ میں شمار کیا گیا ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ‘ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی ہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ 

لعن الله الأكل والمطعم الرشوة

 الله تعالی نے رشوت کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔( کنز العمال )

یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ رشوت لینے اور دینے والے پر تو اللہ کی لعنت ہے لیکن اس شخص پر بھی اللہ کی لعنت ہے جو ان دونوں کے درمیان آلہ کار بنے ۔ گو دلال نے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا ہو لیکن وہ رشوت کے معاملے میں معاونت کرتا ہے لہذا وہ بھی اتنا ہی مجرم ہے جتنے کہ لینے اور دینے والے ہیں اور اس کا بھی وہی حال ہوگا جو راشی اور مترشی کا ہوگا ۔ اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث یہ ہے۔

لعـن رسـول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والذي يعمل بينهما۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے رشوت دینے والے پر رشوت لینے والے پر اور اس پر جو ان دونوں کے درمیان واسطہ بن کر کام کرے ۔ ( شرح احیاۓ العلوم )

 رسول پاک کے ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ رشوت موجب لعنت ہے۔ لعنت سے مراداللہ کی رحمتوں، بخششوں اور کرم نوازیوں سے دوری ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کوئی بادشاہ کسی کوا پنا مصاحب بناۓ خلعت شاہی سے نوازے تو اس کی کتنی خوش نصیبی سے لیکن ساتھ ہی تا کید کر دے کہ فلاں کام نہ کرنا اور پھر واضح بھی کر دے کہ اس کام میں اگر تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی تو میں تمہیں اپنے دربار سے نکال دوں گا۔ اپنی قربت سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دوں گا اس کے بعد اگر وہ شخص چوری چھپے یا ظاہراً وہ کام کرے اور بادشاہ کو پتہ چل جاۓ کہ اس نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے تو لامحالہ اس شخص پر بادشاہ کا عتاب ہوگا اور اسے ہمیشہ کے لئے دربار سے نکال دے گا اپنی مصاحبت سے محروم کر دے گا ۔ دربار سے یہ راندہ جانا قربت سے دوری اعزازات سے محرومی لعنت کہلاۓ گی ۔ایسے ہی راشی اور مرتشی چونکہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے چنانچہ اللہ اسے اپنی رحمت سے نکال کر دور پھینک دیتا ہے ۔ رحمت سے دوری دنیا کی ذلت اور آخرت کا عذاب ہے ۔ 

  اللہ کی لعنت کبھی مال وزر کی صورت میں آزمائش بنتی ہے کبھی مبتلائے فتنہ کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ جو لوگ جہالت سے برا کام کر بیٹھیں اور اس کے بعد توبہ کر لیں تو ان کو اللہ تعالی معاف کر دیتا ہے ۔ یہ معانی صرف حقوق میں ملتی ہے ۔ حقوق العباد میں نہیں، یوں تو توبہ گناہوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے ریاء نیکیوں کو مگر حقوق العباد کے سلسلہ میں زبانی توبہ مؤثر نہیں ہوئی ۔اس کے لئے عملی توبہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جن جن سے ناجائز طریق سے مال حاصل کیا گیا ہو یا جن جن کا مال ناجائز ذرائع سے کھایا گیا ہو ۔ ان کو ان کا مال یا اس کی قیمت ادا کی جاۓ یا ان سے ان کا حق معاف کرایا جاۓ۔

 رشوت کی توبہ یہ ہے کہ جن سے رشوت حاصل کی گئی ہے ان کو واپس کی جائے اگر ان کا پتہ نہ ہو یا بہت کوشش کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکے کہ وہ کہاں رہتے ہیں تو جتنا جتنا روپیہ یا مال جس جس سے لیا تھا ۔ اس قد ر روپیہ یا مال اصل مالکان کی طرف سے خیرات کر دیا جاۓ تا کہ آخرت کے مواخذہ سے بچ جاۓ ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مر جاۓ اور اس کی کمائی بیع باطل یا ظلم یا رشوت وغیرہ کی ہو تو وارثوں کو اس سے بچنا چا ہیے ۔اس میں سے کچھ نہ لینا چاہیے ۔ ان کے لئے بہتر یہی ہے اور ان مالوں کو ان کے مالکوں کو واپس کر دیں ۔ اگر ان کو معلوم کر سکیں ۔ ورنہ خیرات کر دیں ۔ کیونکہ جب واپس کر نا دشوار ہوتو پھر حرام کمائی کو خیرات کر دینا ہی اس کا طریقہ ہے ۔ اس بہانہ سے کہ اب کچھ یاد نہیں کہ کس کس سے کتنا کتنا لیا تھا ۔ چھٹکارا نہیں ہوگا ۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ جس قد ر یاد آۓ اس سے زائد خیرات کر دیا جاۓ تا کہ گناہ و عذاب کا شبہ ہی نہ رہے ۔ مگر اس کا خود استعمال کر نا حلال نہ ہوگا ۔ ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے کہ اللہ وہ خیرات کفارہ کے طور پر قبول کر لے لیکن آئندہ رشوت لینے سے ہمیشہ کے لئے تو بہ کر لے اور سابقہ کیے پر استغفار کرے۔

  بنی اسرائیل کے زمانہ میں تین نامی گرامی قاضی تھے جن کی خدا نے جانچ کرنا چاہی، دو آدمیوں کو بھیجا جن میں ایک تو گھوڑی پر سوار جس کی بچھیری اس کے ساتھ تھی ، دوسرا گائے پر سوار تھا ۔ گاۓ والے نے گھوڑی کی بچھیری کو بلایا اور وہ اس کے ساتھ لگ گئی ۔اس پر گھوڑی سوار بولا کہ پچھیری گھوڑی کی ہے ۔ دوسرا بولا نہیں ۔ یہ میری گاۓ کی ہے ۔ اس پر دونوں جھگڑتے ہوۓ ایک قاضی کے پاس پہنچے اور دونوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں دلیلیں پیش کیں مگر گاۓ والے نے پہلے سے قاضی کی مٹھی گرم کر دی تھی اور رشوت کے طور پر اس کی جیب میں کافی رقم ڈال دی تھی ۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ قاضی صاحب نے فیصلہ میں لکھا کہ بچھیری گاۓ کی ہے ۔ پھر یہ دونوں عدالت سے نکل کر دوسرے قاضی کے محکمہ میں گئے اور انہیں بھی رشوت دے کر گاۓ والے نے اپنے ہی حق میں فیصلہ لکھوایا ۔ پھر ان دونوں نے تیسرے قاضی کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کیا جس کے جواب میں قاضی صاحب بولے کہ مجھے حیض آرہا ہے ۔ حیض سے فراغت کے بعد تمہارا مقدمہ سنوں گا ۔ اس پر دونوں حیرت سے بولے بھلا مردوں کو بھی کہیں حیض آ تا ہے ؟ اس پر نیک نہاد قاضی نے برجستہ کہا بھلا گائیں بھی بچھیری جن سکتی ہیں ؟ جاؤ ! رشوت دے کر غلط فیصلہ کروانے سے تو بہ کرو ۔

No comments:

Post a Comment