لبیک یا رسول اللہ ﷺ
حضور اکرم سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات عالی صفات تمام اخلاق و خصائل صفات جمال اعلی و اشرف ہے۔ ان تمام کمالات و محاسن کا احاطہ کرنا اور بیان کرنا انسانی قدرت اور طاقت کے باہر ہے کیوں کہ وہ تمام کمالات جن کا عالم امکان میں تصور ممکن ہے سب کے سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہیں۔ تمام انبیاء اور مرسلین آپ کے آفتابِ کمال کے چاند اور انوارِ جمال کے مظہر ہیں ۔
![]() |
Labeek Ya Rasool Allah |
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اخلاق اور عادات کی تمام خوبیاں اور کمالات اور اعلی صفات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں جمع فرما دی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی نے اولین اور آخرین کے علوم سے جو آپ کے شایانِ شان تھے بہرہ ور فرمایا تھا۔ حالانکہ آپ امی٘ تھے کچھ لکھ پڑھ نہ سکتے تھے نہ انسانوں میں سے کوئی آپ کا استاد تھا اس کے باوجود آپ کو ایسے علوم عطا فرمائے گئے تھے جو اللہ تعالی نے تمام کائنات میں کسی اور کو نہیں دیے۔ آپ کو زمین کے خزانوں کی چابیاں پیش کی گئی مگر آپ نے دنیاوی مال و متاع کے بدلے ہمیشہ آخرت کو ترجیح دی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم اور حکمت کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے سب سے زیادہ محترم سب سے زیادہ منصف سب سے زیادہ حلیم اور بردبار سب سے زیادہ پاکدامن تھے اور لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے اور لوگوں کی ایذا رسانی پر سب سے زیادہ صبر اور تحمل کرنے والے تھے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ جسمانی اور روحانی کمالات کے جامع اور خوبصورتی اور نیک سیرتی کے حامل تھے اور سب سے زیادہ کریم سب سے بڑھ کر سخی تھے۔ بخاری اور مسلم نے سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حسین, بہادر اور فیاض تھے ۔ آپ تمام انسانوں میں سب سے اشرف تھے اور آپ کے مزاج میں سب سے زیادہ اعتدال تھا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو خوبصورت نہیں دیکھا آپ کے رخسار مبارک میں سورج چمک رہا ہے جب آپ مسکراتے تھے تو دیواروں پر اس کی چمک پڑھتی تھی ۔
ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دیکھنے والوں کی نظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ انور عظیم, بزرگ اور دبدبہ والا تھا۔ آپ کا چہرہ ایسا چمکتا تھا جیسے چودھویں کا چاند چمکتا ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کوئی عنبر اور کوئی مشک اور کوئی خوشبودار چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہک سے زیادہ خوشبودار نہیں دیکھی۔ جب آپ کسی سے ہاتھ ملاتے تو تمام دن اس شخص کو اپنے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی۔ اور جب کسی بچے کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے تو وہ بچہ خوشبو کے سبب دوسرے بچوں میں پہچانا جاتا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی راستے سے گزرتے اور کوئی شخص آپ کی تلاش میں جاتا تو وہ خوشبو سے جان لیتا کہ آپ اس راستے سے تشریف لے گئے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں آپ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ۔" آپ کا اخلاق قرآن تھا" اس کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو کچھ قرآنِ کریم میں اخلاق وصفات محمودہ مذکور ہیں آپ ان سب سے متصف تھے .قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب "الشفاء" میں فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی قرآن کی خوشنودی کے ساتھ اور آپ کی ناراضگی قرآن کی ناراضگی کے ساتھ تھی۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے ۔
(ترجمہ) "بلاشبہ آپ بڑے ہی صاحبِ اخلاق ہیں "
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صبر, بردباری اور درگزر کرنے کی صفات نبوت کی عظیم ترین صفتوں میں سے ہیں۔ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اپنے ذاتی معاملہ اور مال و دولت کےسلسلے میں کسی سےانتقام نہیں لیا. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے زیادہ صبر غزوۀ احد میں تھا کہ کفار نے آپ کے ساتھ جنگ اور مقابلہ کیا اور آپ کو شدید ترین رنج و غم پہنچایا مگر آپ نے ان پر نہ صرف صبر و عفو فرمایا بلکہ ان پر شفقت و رحم فرماتے ہوئے ان کے اس ظلم کو جہالت گردانا اور ان کے لیے اللہ تعالی سے دعا کی , "اللہ میری قوم کو راہ راست پر لا کیوں کہ وہ نہیں جانتے "
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے راستے پر مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ستایا گیا گیا اور ایک دفعہ 30 رات دن مجھ پر اس حال میں گزرے کہ میرے اور بلال کے لیے کھانے کی کوئی چیز ایسی نہ تھی جس کو کوئی جاندار کھا سکے۔
رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم توحید کی تبلیغ کے لیے حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لیے ہوئے پیدل طائف پہنچے۔ وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی جس سے وہ سب ناراض ہو کر آپ کی مخالفت پر اتر آئے۔ وہاں کے سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں کے لڑکوں کو سکھا دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وعظ فرماتے تو وہ لوگ آپ پر اتنے پتھر پھینکتے کہ حضوراکرم لہولہان ہو جاتے ۔ خون بہہ بہہ کر نعلین مبارک میں جم جاتا اور وضو کے وقت پاؤں سے جوتا اتارنا مشکل ہو جاتا. ایک دفعہ ان بدمعاشوں اور اوباشوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر گالیاں دیں تالیاں بجائیں چیخیں ماریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکان کے احاطے میں جانے پر مجبور ہوگئے۔ اسی مقام پر ایک دفعہ وعظ فرماتے ہوئے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنی چوٹیں آئیں کہ آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اپنی پیٹھ پر اٹھایا اور آبادی سے باہر لے گئے اور پانی کے چھینٹے دینے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہوش آیا ۔
اس سفر میں اتنی تکلیفوں اور ایذاؤں کے باوجود ایک شخص بھی مسلمان نہ ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپس ہوتے ہوئے یہ فرمایا۔
میں ان لوگوں کی تباہی کے لیے کیوں دعا کرو ں اگر یہ لوگ خدا پر ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا امید ہے کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور اللہ واحد پر ایمان لانے والی ہوں گی
کفار مکہ اکیس سال تک آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو ستاتے رہے ظلم وستم کا کوئی حربہ ایسا نہ تھا جو انہوں نے خدائے واحد کے ماننے والوں پر نہ آزمایا ہو حتی کہ وہ گھربار اور وطن تک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن جب مکہ فتح ہوا تو اسلام کے یہ بدترین دشمن مکمل طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحم وکرم پر تھے اور آپ کا ایک اشارہ ان سب کو خاک میں ملا سکتا تھا لیکن ہوا کیا ۔
وہ تمام اسلام دشمن آپ کے سامنے سر جھکا کر کھڑے تھے۔
آپ نے پوچھا" تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں ؟"
انہوں نے دبی زبان میں جواب دیا۔
"اے صادق! اے امین! تم ہمارے شریف بھائی اور شریف برادرزادے ہو۔ ہم نے تمہیں ہمیشہ رحم دل پایا ھے."
آپ نے فرمایا آج میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔
حضور نے فرمایا۔ "تم پر کچھ الزام نہیں جاؤ آج تم سب آزاد ہو."
جنگِ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور مسلمانوں کو ایک ایک آدمی کی اشد ضرورت تھی۔ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ اور ابوحسیل رضی اللہ عنہ دو صحابی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی۔ "یارسول اللہ ہم مکہ سے آرہے تھے تھے راستے میں کفار نے ہم کو گرفتار کر لیا اور اس شرط پر رہا کیا ہے کہ ہم لڑائی میں آپ کا ساتھ نہ دیں گے, لیکن یہ مجبوری کا عہد تھا ہم ضرور کافروں کے خلاف لڑیں گے۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "ہرگز نہیں. تم اپنا وعدہ پورا کرو اور لڑائی کے میدان سے واپس چلے جاؤ۔ ہم مسلمان ہر حال میں وعدہ پورا کریں گے ۔ ہم کو صرف خدا کی مدد درکار ہے ۔"
حضرت عبداللہ بن ابی الحماد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اعلان نبوت سے پہلے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز خریدی کچھ رقم باقی رہ گئی۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وعدہ کیا کہ میں رقم اسی جگہ لے کر حاضر ہوتا ہوں۔ لیکن میں بھول گیا۔ تین دن کے بعد مجھے یاد آیا۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی جگہ تشریف فرما ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا۔ تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
غزوہ حنین کے موقع پر کفار نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی۔ جس سے صحابہ کرام میں ایک قسم کا ہیجان , پریشانی اور ڈگمگاہٹ پیدا ہوگئی لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ فرمائی۔ آپ گھوڑے پر سوار تھے اور ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے آپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ کفار چاہتے تھے کہ آپ پر حملہ کردیں۔ آپ گھوڑے سے اترے اور اللہ تعالی سے مدد مانگی اور زمین سے ایک مشت مٹی لے کر دشمنوں کی طرف پھینکی۔ کوئی کافر ایسا نہ تھا جس کی آنکھ اس مٹی سے بھر نہ گئی ہو۔ اس روز آپ سے زیادہ بہادر شجاع اور دلیر کوئی نہ دیکھا گیا
No comments:
Post a Comment