قرآنِ مجید کے عجائبات!
پچھلے چودہ سو سال سے قرآن پر پوری دنیا کے مسلمانوں اور غیر مسلموں نے بے شمار تحقیقات کیں ہیں اور تاقیامت کرتے رہیں گے لیکن اس طرح کے سوالات آج بھی منظرِعام پر آتے رہتے ہیں اور آتے رہیں گے کہ,سب سے پہلے قرآن کس نے لکھا؟, قرآن کیا ہے اور کس نے لکھا ہے؟, اصل قرآن کہاں لکھا گیا ہے؟, قرآن کی عمر کتنی ہے؟قرطبی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ قرآن الله تعالی کے کلام کا نام ہے ۔ جو( پڑھے ہوئے ) کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ مکتوب کا نام کتاب اور مشروب کا نام شراب۔ بعض کتب تاریخ میں درج ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر 26000 مرتبہ نزول فرمایا۔ انبیا علیہم السلام میں سے کوئی نبی بھی اس عدد کو نہیں پہنچے ہیں ۔ قمری سال کے ایام تقریبا 355 ہوتے ہیں اور نبوت کے 33 سالوں کے کل ایام آٹھ ہزار ایک سو پینسٹھ 8165 بنتے ہیں ۔ دنوں کے اس عدد پر 26 ہزار کوتقسیم کرنے سے روزانہ تقریبا تین مرتبہ نزول جبریل علیہ السلام ثابت ہوتا ہے ۔
اللہ کالفظ قرآن مجید کا نچوڑ ہے ایک علمی نکتہ ذہن میں رکھیے ۔ قرآن مجید کی سورتوں کی تین اقسام ہیں ۔ سورة مجادلہ کی ہر ہر آیت کے اندر اللہ تعالی کا نام آتا ہے ۔ دوسری وہ سورتیں ہیں جن میں ہر دوسری تیسری آیت کے اندر اللہ تعالی کا نام آتا ہے ۔ لفظ اللہ قرآن مجید میں چھ سو اٹھانوے 698 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ تعوذ میں اور ایک مرتبہ تسمیہ میں اگر ان دو کو بھی ساتھ ملا لیا جائے تو کل سات سو مرتبہ بنتا ہے ۔ الرحمن اور الرحیم کے الفاظی متعدد بار استعمال ہوئے ہیں ۔ البتہ رب کا لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے ۔ ہر چند آیتوں کے بعد آپ کو رب کا لفظ ملے گا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ الله رب العزت نے اپنے نام کو ارادتاً بار بار استعمال فرمایا ہے تا کہ میرے بندوں کی زبان سے میرا نام بار بار نکلتا رہے۔
امت محمدیہ کے اسلاف نے قرآن مجید پر اتنا کام کیا ہے جو آج ہمارے لئے باعث فخر ہے تفسیروں کی طرف دیکھئے کتنی تفسیریں لکھی گئی ہیں اور کس کس رنگ میں لکھی گئی ہیں ۔ کسی نے علم کلام کی روشنی میں فرق باطلہ کی تردید کی ہے ۔ کسی نے روایات حدیث اور آثار کو تفسیر میں خاص درجہ دیا ۔ کسی نے قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت پر توجہ دیتے ہوئے تفسیر لکھی ۔ کسی نے آیت کی تفسیر میں دوسری آیت پیش کی ۔ کسی نے احسان و تصوف کی باریکیاں پیش کیں ۔ کسی نے ربط آیات پر خاص توجہ دی اور اس کو مد نظر رکھا ۔ کسی نے علوم قرآن کو ایک جگہ ضبط کردیا ۔ کسی نے مسائل فقہ و کلامیه ونحویہ کا استخراج کیا ۔ کسی نے متقدمین کی تمام کوششوں کو یکجا اپنی تفسیر میں جمع فرما کر بہت سی تفسیروں سے بے نیاز کر دیا ۔
الله تعالی تمام مفسرین کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اپنی رحمتوں سے نوازے اور اپنے كلام کی خدمت کے صلہ میں ان کے درجات بلند فرمائے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ قرآن مجید کے زیرو زبر اور آیات و حروف کی تعداد بھی گن کر بتادی ۔ چنانچہ یہاں آیات و حروف کی تعداد پیش کی جاتی ہے ۔ تعداد حروف میں بہت اختلاف ہے ۔
علامہ سیوطی نے اتقان میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت لکھی ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی تعداد چھ ہزار چھ سو سولہ(6616 ) ہے اور حروف کی تعداد تین لاکھ تینتیس ہزار چھ سو اکہتر ہے(333671 )اور یہی تعداد ان کے نزدیک معتبر ہے ۔ ( اتقان فی علوم القرآن ) .
ابن عباس کے شمار کے مطابق قرآن مجید کے حروف ( 323671 ) تین لاکھ تیئس ہزار چھ سو اکہتر ہیں . ( 2 ) عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کے شمار میں ( 321250 ) تین لاکھ اکیس ہزار دو سو پچاس ہیں۔( 3 ) مجاہد کے قول پر تین لاکھ اکیس ہزار ایک سو اڑتیس ہیں ( 321138 ). ( 4 ) عطاء بن یسار کے قول پر تین لاکھ تیئس ہزار پندرہ- ( 323015 ) ہیں. ( 6 ) یحیٰی بن حارث ذماری کے مطابق( 321530) تین لاکھ اکیس ہزار پانچ سو تیس حروف ہیں ۔
جب کہ تراویح میں اکثر مقام پر پورا قرآن پڑھا اور سنا جاتا ہے تو امام کو جو حافظ قرآن ہوتا ہے اس کو موافق قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تین لاکھ تینتیس ہزار چھ سو اکہتر نیکیاں ملتی ہیں اور اتنی ہی ہر مقتدی کو جو پورے ذوق و شوق سے شروع سے آخر تک نیت باندھ کر سنتا ہے نیکیاں ملتی ہیں ۔
حضرت عیاض بن حمارمجاشعی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز دوران خطبہ میں ارشاد فرمایا خبردار ( سنو ) ! میرے پروردگار نے فرمایا ہے کہ میں نے تمہیں رسول بنا کر اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں نے آپ کی ذات کا اور آپ کے زریعہ اوروں کا بھی امتحان کرنا ہے ۔ اور میں نے آپ پرایسی کتاب اتاری ہے جس کو پانی دھو اور مٹا نہیں سکتا ہے ۔ اور آپ اسکو سوتے اور جاگتے دونوں حالتوں میں پڑھ سکتے ہیں ( یعنی آ نکھیں بند کر کے حفظ بھی اور آنکھ سے دیکھ کر ناظرہ بھی ) بخلاف باقی آسمانی کتابوں کے کہ وہ صرف اوراق میں محفوظ ہوتی تھی اور جن کی لکھائی کو پانی کے ذریعہ دھویا اور مٹایا جاسکتا تھا ۔ لہذا ان کتب کی حفاظت کے مقابلے میں قرآن کی حفاظت زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے ( صحیح مسلم )
چالیس ہجری سے کچھ عرصہ بعد تک لوگ عثمانی مصاحف کے طور پر پڑھتے رہے پھر عراق میں نقطوں کی غلطی بکثرت واقع ہونے لگی ۔حجاج بن یوسف ثقفی ( متوفی شوال ۹۵ . ) نے عبدالمالک بن مروان کے زمانے میں کاتبین مصاحف سے یہ مطالبہ کیا کہ جو حروف دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مثلا ( دذ ، رز ، س ش ، وغیرہ ) ان کے لئے بھی علامتیں مقرر کردیں ۔ جحاج نے نصربن عاصم لیثی اور یحیٰی بن یعمر عدوانی کو بلایا اور ان سے اس کام کو سر انجام دینے کو کہا۔
اردو زبان میں کلام پاک کا سب سے پہلا ترجمه و تفسیر ہندی اردو میں قاضی محمد معظم سنبھلی نے 1131 میں تصنیف کیا جس کا واحد خطوط نورالحسن صاحب بھوپالی کے کتب خانہ کی زینت ہے ۔ قرآن کریم کا ایک اور ترجمہ دکنی اردو میں 1150 میں ہوا جس کے مصنف کا نام تحقیق نہ ہوسکا تاہم اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ بعدازاں شاہ رفیع الدین محدث دہلوی نے 1190 میں ترجمه صرفیہ اور ان سے پندرہ برس بعد ان کے برادر شاہ عبد القادر محدث دہلوی ( متوفی ۱۲۳۰ ھ ) نے تشریحی ترجم قرآن مجید بنام " موضح قرآن کیا ۔ قرآن مجید کی سب سے بہتر تفسیر "بیان القرآن "ھے۔
قرآن کریم کی کتابت کے عجائبات بے شمار ہیں ان میں سے ایک زری اور سنہری قرآن مجید ھے جو سبز رنگ کی نائیلون پرسونے کی تاروں سے تیار کیا گیا ہے ۔ ایک ایک پارہ کی جلد بندی کی گئی ہے ۔ زری قرآن کے کل صفحات باره صد چودہ 1214 ہیں ۔ ان کا وزن تقریبا ساڑھے چار من ہے ۔اس وقت اندازہ یہ تھا کہ زری قرآن پاک کی تکمیل پر تین لاکھ روپے لاگت آئی ہے ۔ اور تقریبا ایک ہزار سال تک اپنی اصلی حالت میں رہے گا ۔ یہ نسخہ اسلامی یادگار کے طورپر پاکستان کے قومی عجائب گھر میں رکھا گیا ہے ۔
لوح محفوظ میں تو بڑے بڑے حرفوں میں لکھا ہے ۔ جیسے بعض روایات سے معلوم ہو ہے کہ ایک ایک حرف کوہ قاف کے برابر ہے ۔ ( اور ہرحرف کے نیچ اتنے معانی ہیں کہ اللہ تعالی کے سواے اور کوئی ان کا احاطہ نہیں کر سکتا)
احادیث میں فرمایا گیا ہے کہ بار یک حرفوں میں قرأن کو حضرت اسرافیل علیہ السلام کی پیشانی پرلکھا گیا تو وہ باریک حرفوں میں بھی لکھا ہوا ہے ۔ آپ کلام کو موٹےحرفوں میں چھاپیں تو آپ بھی حق تعالی کا اتباع کر رہے ہیں ۔ کہ انہوں نے بھی بڑے موٹے حرفوں میں لوح محفوظ میں لکھ دیا اوراگرآپ نے چھوٹے حرفوں میں چھاپا تو اسرائیل علیہ السلام کی پیشانی پر اس طرح لکھا گیا۔
حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمداللہ نے فرمایا کہ ۔ہم نے ایک قرآن شریف دیکھا ہے ۔ اس کے اوراق کی لمبائی تقریبا ساڑھے تین گز ہے اور چوڑائی دوگز ہے۔ایک بڑی میز پرتقریبا پندرہ سپارے رکھے ہوے ہیں جو مسجد کی چھت تک بہنچ گئے ۔ دوسری میز پر پندرہ سپارے دوسرے رکھے ہوئے ہیں ۔ خدا جانے | کاتب کو کیا سوجھی ہوگی ؟ کون ساقلم لیا ہوگا ؟ یعنی تقریبا چار چارانگشت چوڑے اس کے حروف ہیں ۔ تو مسلمانوں نے کوئی نمونہ نہیں چھوڑا قرآن شریف کے لکھنے میں ۔ چوڑے حروف ، باریک حروف ، پتلے حروف ۔عکسی حروف ہرقسم کے نمونے مہیاکردیے ہیں ۔
" بروے میں ایک مترجم قرآن مجید جامع مسجد میں رکھا ہوا ہے۔ جس کی لمبائی 157 انچ اور چوڑائی 141 انچ فی صفحہ ھے۔
جناب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کاتبان وحی کی تعداد روایتوں کے مطابق کم و بیش چالیس تھی جن میں مشہور یہ ہیں ۔ ۔1 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔ 2.حضرت عمرفاروق رضی الله عنه ۔ 3.حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ 4. حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ 5. حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ 6/ حضرت عبداللہ بن سعدرضی اللہ عنہ ، 7.حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ 8. حضرت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ 9. حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ 10. حضرت علاء رضی اللہ عنہ 11۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 12۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ.13.حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ 14. حضرت عبداللہ بن سلول رضی اللہ عنہ 15.حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ 16. حضرت معاویہ پن ابی سفیان رضی اللہ عنہ 17. حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ 18.حضرت جہم بن الصلت رضی الله عنه .
حضور اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن پاک کے لکھے ہوئے نسخے عام طور پر صحابہ رضی الله عنہم کے پاس موجود تھے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے خود لکھے اور اکثر نے لکھوائے ۔ امہات المومنین حضرت ام سلمہ۔ حضرت حفصہ ، حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے قرآن پاک لکھوائے اور یہ سب دیکھ کر تلاوت کیا کرتی تھیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آزاد کردہ غلام ابویونس رضی اللہ عنہ سے قرآن پاک لکھوایا۔ حضرت عمر بن رافع رضی الله عنہ نے حضرت حفصہ رضی الله عنہا کے لیے قرآن لکھا۔ مشہور شاعر حضرت لبید رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہو گئے تو انہوں نے قرآن نویشی کاشغل اختیار کیا تھا ۔
امام ابن حزم نے لکھا ہے ۔ کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوئی شہرایسا نہ تھا جہاں لوگوں کے پاس بکثرت قرآن پاک موجود نہ ہوں ۔ عہد صدیقی کے ایک مصحف کا ورق جس پر سورہ جن کی آیات لکھی ہوئی ہیں یورپ کے مشہور کتب خانہ بور ولین لائبریری میں موجود ہے ۔ اور بھی مصاحف اس عہد کے وہاں ہیں ۔ حضرت عمر رضی الله عنہ کے عہد میں صرف مصر ، عراق ، شام اور یمن وغیرہ میں قرآن پاک کے ایک لاکھ سے زائد نسخے موجود تھے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں میں نے قرآن جمع کیا۔ 25ھجری میں حضرت عثمان نے بارہ آدمی مامورفرمائے جن میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت سعید بن العاص رضی الله عنه ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن حارث بن ہشام ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جنہوں نے قرآن پاک کی تدوین کی اور لغت قریش پر یہ نسخہ تیار کیا اس لئے حضرت عثمان رضی الله عنه جامع القرآن مشہور ہوئے ۔ اور اس نسخے سے پھر سات نسخے تحریر کے گئے ۔ جو مکہ معظمہ ، مدینہ منورہ ، بصرہ ۔کوفہ شام اور بحرین ارسال کئے گئے ۔
بابا فرید گنج شکر کے خاندان سے ایک بزرگ شیخ جنید حصاری ہوئے ہیں ۔ آپ کا زمانہ سلاطین لودھی کا زمانہ ہے ۔ آپ جید عالم اور صاحب دل بزرگ تھے ۔ حافظ قرآن بھی تھے آپ نے تحصیل علم سے فراغت حاصل کر کے حصارکو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔ وہاں سے اسلام ۔علوم اسلامی اور خاص طور پر قرآن پاک کی تعلیمات کی اشاعت شروع کر دی ۔ آپ نے ساری عمر درس تدریس کا مشغلہ جاری رکھا کبھی کسی امیر یا صاحب ثروت کے آستانے پر نہیں گئے خطاطی سے روزی پیدا کرتے تھے زودنویسی میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ بعض لوگ اس کو آپ کی کرامت پر محمول کرتے تھے چنانچہ صاحب الاخبار الاخیار فرماتے ہیں کہ آپ تین دن میں پورا قرآن مع اعراب لکھ لیا کرتے تھے اس سے یہ غلط فہمی نہیں ھونی چاہئے کہ آپ درس وتدریس کا مشغلہ ترک کر کے کتابت کیا کرتے تھے بلکہ درس و تدر یس کے بعد فرصت کے وقت آپ یہ فریضہ انجام دیا کرتے تھے ۔
پندرھویں صدی ہجری کے شروع میں القرآن پرنٹرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے القرآن الحکیم الفی شائع کیا ہے ۔ جس کی ہر سطربشکل الف شروع ہوتی ہے ۔ قرآن کی 36ضرب 23 سائز میں سات برس میں کتابت مکمل ہوئی 9 طرح کے قدیم و جدید نقش و نگارحاشیوں کو جواہرات کے نو رنگوں میں سجایا گیا ہے ۔
حافظ محمدحسین لاہوری نے ( 1080 ) میں 30 ورق پرمشتمل ایک نسخہ قرآن اس طرح تحریر کیا کہ ہر صحفہ کی پہلی سطر کے علاوہ باقی تمام سطور حرف الف سے شروع ہوتی تھیں ۔ اسی طرح انہوں نے قرآن کریم کا ایک اور نسخہ لکھا ۔ یہ بھی 30 اورق پرمشتمل تھا اوراس میں ہر صحفہ کی پہلی سطر کے علاوہ باقی تمام سطور" و "سے شروع ہوتی تھیں ۔ محمد طابر بن عبدالقادر کردی نے اپنی تالیف "تاریخ الخط العربي و آدابہ" میں مذکورہ دونوں نسخوں کا ذکر کیا ہے ۔ اورلکھا ہے کہ یہ نسخے چالیس پچاس سال پہلے تک مدینہ منورہ میں روضہ نبوی ﷺ میں موجود تھے ۔
قرآنٍ کریم نبی کریم صلی الله علیہ والہ وسلم کا سب سے بڑا معجزه ھے۔ علماء لکھتے ہیں کہ سب سے بڑا مجرہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا قرآن کریم ہے جس سے روح وقلب میں تغیر ہوا۔ ایک ہے باہر کی تبدیلی اور ایک ہے اندرکی تبدیلی, اندر کی تبدیلی سب سے بڑی چیز ہے اور وہ باہر کی تبدیلی سے بھی زیاده اعلی وبلند چیز ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں سورہ رعد میں ایک مقام پرارشاد ہے کہ کافروں نے یہ بات کہی ۔
" کہ اگر قرآن کریم کے ذریعے پہاڑوں کو چلا دیا جاتا کہ صفا ہٹ کر صاف ہوجاتا مروہ ہٹ کر دور ہو جا تا تو میدان بن جاتا ہے اور ہمارے لے چلنے پھرنے میں اور معیشت کی زندگی کے سارے کاموں میں سہولت ہو جاتی۔ مطلب یہ کہ نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم اگر اس قرآن کے ذریعے پہاڑوں کو چلاتے ہٹاتے اور اس قرآن کے ذریعے زمین پھٹ پڑتی اور چشمے نکل آتے اور ان سے پانی ابل آتا ۔ کھیتی باڑی کی شکلیں پیدا ہوتی باغ اور گلستان کی شکلیں ظاہر ہوتیں تو سرزمین مکہ باغ و بہار اور گل گلزار بن جاتی۔ یا اس قرآن کے ذریعہ سے ہمارے آباؤ اجداد جو قبروں میں جا چکے ہیں وہ زندہ ہو کر کلام شروع کر دیتے تب جا کر ہم ایمان لاتے تو پہلی صورت کافروں نے یہ ذکر کی کہ اگر پہاڑ ہٹتا تو ہم ایمان لے آتے علماء لکھتے ہیں کہ ان نادانوں کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ طبیتیں جوکفر وشرک پرجمی ہوئی تھیں وہ شخصیتیں جو معصیتوں اور گناہوں پر اڑی ہوئی تھیں وہ اپنی برائیوں اور عادتوں پر پہاڑوں سے زیادہ اٹل تھیں ، حق تعالی نے اس قرآن کی بدولت ان میں تبدیلی اور تغیر پیدا کیا ان کی حالت تبدیل ہوگئی کہ وہ برائیوں بدیوں اور خرابیوں پر پہاڑ سے زیادہ جمے ہوئے تھے وہ ایمان کی طرف مائل ہوے اور حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ زمین سے چشمے نکلتے۔ اتنے گئے گزرے اخلاق تھے کیڑے کھانا ان کا کام مکوڑے کھاتا ان کا کام گھوڑے دوڑانے پرلڑائی ان کا کام اور ایک ایک بات پر 120 سال تک جنگ کرنا انکا کام سب تاریخ میں ملتا ہے ایسی قوم. ایسی قوم میں اتنی عظیم تبدیلی آنا! کوئی معمولی بات ہے تو اس قوم کے افراد ایمان لائے علم ومعرفت سے ان کے سینے لبریز ہوئے اور ان کی زبانوں سے حکمت و معرفت اورعلم کے چشمے ابل پڑے۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ زمین پھٹے اور اس سے چشمے ابلیں ؟ ان عقلمندوں کو یہ خبر نہیں کہ علم و معرفت کے چشمے ان کی زبانوں سے پھوٹ رہے ہیں۔
دنیا کا کسی زبان کا کوئی شاعر ادیب خواہ اپنے فن میں کمال کے کتنے بلند مرتبے کو پہنچا ہوا ہو یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ اس کے کام میں کہیں بھی کوئی لفظ غیر فصیح استعمال نہیں ہوا کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے مفہوم کو ادا کرنے کیلئے کسی نہ کسی غیرفصیح لفظ کے استعمال پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن پورے قرآن کریم میں الحمد سے لے کر والناس تک نہ صرف یہ کہیں کوئی ایک لفظ بھی غیرفصیح نہیں ہے بلکہ ہر لفظ جس مقام پر آیا ہے وہاں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ایسا اٹل ہے کہ اسے بدل کر اسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ دوسرا لفظ لانا ممکن ہی نہیں ہے ۔ عربی زبان ایک انتہائی وسیع زبان ہے جو اپنے ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے دنیا کی دولت مند ترین زبانوں میں سے ایک ہے چنانچہ اس میں ایک مفہوم کیلئے معمولی فرق سے بہت سے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔اس وسیع ذخیرے سے قرآنٍ کریم وہی لفظ منتخب فرماتا ہے جو عبارت کے سیاق معنی کی ادائیگی اور اسلوب کے بہاؤ کے لحاظ سے موزوں ترین ہو ۔ الفاظ کے بعد جملوں کی ترکیب اورنشست کانمبر آتا ہے۔اس معاملے میں بھی قرآن کریم کا آغاز اوج کمال پر ہے ۔ قرآن کریم کے جملوں کے درو بست میں وہ شوکت سلاست اور شیرینی ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی.
No comments:
Post a Comment