Islamic Education

Sunday, October 24, 2021

ناپ تول میں کمی سے توبہ

 ناپ تول میں کمی سے توبہ

Weight loss will be followed by fatigue and constant tiredness
ناپ طول میں کمی سے توبہ


 خرید و فروحت اور لین دین زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے اور اس شعبہ میں عدل و انصاف دیانت وصداقت کو قائم رکھنا اسلام کا بنیادی مقصد ہے ۔لہذا تجارت میں لینے اور دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا حق ادا کریں سودا بیچنے والے کیلئے لازم ہے کہ اس کا ناپ تول پورا ہو ناپ تول میں کمی اللہ کے قائم کردہ نظام عدل کے خلاف ہے۔ اسلام کا نظام عدل ایک فطری قانون ہے جس کا منشا یہ ہے کہ جس کی جو چیز ہو اسے دی جاۓ اور یہی وہ میزان ہے جسے اللہ قائم کر نا چاہتا ہے۔ مگر جو شخص اپنی عملی زندگی میں اللہ کے اس نظام عدل پر نہیں چلتا تو وہ حقیقت میں خدا کا حکم نہیں مانتا اور یہ خسارے کا سودا ہے۔

 اللہ تعالی نے قرآن پاک میں کئی مقامات پر اس امر پر بہت ہی زور دیا ہے کہ ناپ تول کو پورا رکھو ۔ چنانچہ ہر شخص کو اس اصول پر کار بند ہونا چاہئے اور جو دوسرے کا حق ہو اسے بغیر کسی کمی کے ادا کر نا چا ہئے۔ پورے ناپ تول کے متعلق اللہ کا فرمان یہ ہے۔

۔

وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ

اور ناپ اور تول کو انصاف سے پورا کرو،(الانعام۔152)

اَلَّا تَطْغَوْا فِى الْمِيْـزَانِ

(الرحمن۔8) تاکہ تم تولنے میں زیادتی نہ کرو۔

وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْـزَانَ

 (الرحمن۔9) اور انصاف سے تولو اور تول نہ گھٹاؤ۔



ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جتنے مال کی قیمت وصول کی جاۓ اتنا ہی دیا جاۓ ۔ ناپ تول کی کمی کے بارے میں قرآن پاک میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا قصہ بیان کیا ہے جس نے سب سے پہلے ناپ تول میں کمی کے باعث دوسروں کا حق مارنا شروع کیا تھا ۔ یہ قوم عربی النسل تھی اور مدین میں آباد تھی ۔ مدین اس شاہراہ پر تھا جو حجاز سے شام اور فلسطین کو جاتی تھی ۔

 مدین در اصل ایک قبیلہ کا نام تھا لیکن جب وہ ایک مقام پر آباد ہو گیا تو اس علاقے کا نام مدین پڑ گیا ۔ مدین کے لوگ مظاہر فطرت کی پوجا کیا کرتے اور خدا کے ساتھ شرک کرتے تھے حتی کہ ساری قوم بت پرستی میں مبتلا تھی ۔ اس کے علاوہ اس قوم میں برا رواج یہ تھا کہ وہ لین دین اور تجارت میں بے ایمانی کرتے تھے وہ جب کسی سے مال خریدتے تو خریداری میں اپنی مرضی کے باٹ استعمال کرتے اور جب کسی کے ہاتھ مال فروخت کرتے تو بیچنے کے باٹ اور ہوتے جو وزن میں اصل بالوں کی نسبت کم ہوتے ، آخر ان کی برائیوں کی بناء پر اللہ تعالیٰ کو اس قوم کی حالت زار پر رحم آیا اور اللہ تعالی نے اس قوم کو راہ حق پر لانے کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو اس قوم میں پیغمبر مبعوث فرمایا ۔ انہوں نے قوم کو راہ حق کی دعوت دی ۔ آپ نے انہیں کفر وشرک چھوڑ کر خداۓ واحد کی پوجا کی تلقین کی ۔ انہوں نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! ایک خدا کی عبادت کرو کیونکہ اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔خرید وفروخت میں اپنے ناپ تول کو پورا کرو اپنے معاملات میں بے ایمانی سے کام نہ لو، میں اللہ کا پیمبر ہوں اور میری نبوت کو تسلیم کرتے ہوۓ جو میں کہتا ہوں اس پر عمل کرو خدا کی زمین پر فتنہ و فساد نہ مچاؤ ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو تمام برائیوں اور خامیوں سے آگاہ کیا اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اے شعیب ! ہم تمہاری باتوں کو نہیں سمجھتے ۔ بلکہ قوم کے سردار غصے میں آ کر آگ بگولہ ہوۓ اورحضرت شعیب علیہ السلام سے کہنے لگے کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنے باپ دادا کے دیوتاؤں کو پوچھنا چھوڑ دیں کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم ناپ تول میں کمی کر نا چھوڑ دیں اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہم غریب اور نادار ہوجائیں گے ۔حتی کہ قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور برے کاموں میں آ گے بڑھتے گئے ۔حضرت شعیب علیہ السلام کے اس پیغام کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے۔

فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْـزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِى الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ۚ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ مُّؤْمِنِيْنَ (85الاعراف۔)

و ناپ اور تول کو پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان دار ہو۔


اس آیت میں وہی الفاظ ہیں جن کے ذریعے آپ نے قوم کو پورے ناپ تول کی عوت دی تھی ، پھر سورۂ شعراء میں اللہ تعالی نے اس مضمون کو دوبارہ دہرایا تاکہ آنے والے لوگ اس قوم کے کردار سے نصیحت پکڑیں۔


اَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُـوْنُـوْا مِنَ الْمُخْسِرِيْنَ (181)

پیمانہ پورا دو اور نقصان دینے والے نہ بنو۔

وَزِنُـوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيْـمِ (182)

اور صحیح ترازو سے تولا کرو۔

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (183)

اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور ملک میں فساد مچاتے نہ پھرو۔

حضرت شعیب علیہ السلام عرصہ دراز تک قوم کو دین حق کی دعوت دیتے رہے اس کے ساتھ ہی ان میں جو ناپ تول کم کرنے کی برائی تھی اس سے روکتے رہے آپ انہیں کہتے تھے کہ اپنا لین دین پورا اور صحیح کرو، تول میں عدل کرو، باٹ صحیح رکھو، کسی کو چیز کم نہ دو، گویا کہ آپ نے راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی ۔ قوم نے آپ کو بے شمار تکالیف دیں اور طرح طرح کی دھمکیاں دیں لیکن آپ اپنے مشن پر قائم رہے اور جب قوم نے آپ کو ہر طرح سے تنگ کر دیا اور ہدایت کی طرف نہ آئے تو اللہ کی طرف سے اس قوم پر ناراضگی کا اظہار ہوا اور اس پر عذاب نازل کیا گیا ۔ قوم شعیب پر عذاب الہی کے واقعہ کو قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔

وَاِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُـمْ شُعَيْبًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْـيَالَ وَالْمِيْـزَانَ ۚ اِنِّـىٓ اَرَاكُمْ بِخَيْـرٍ وَّاِنِّـىٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ مُّحِيْطٍ (ہود۔84)

 

اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، کہا اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اور ناپ اور تول کو نہ گھٹاؤ، میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور تم پر ایک گھیر لینے والے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

وَيَا قَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْـيَالَ وَالْمِيْـزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْيَآءَهُـمْ وَلَا تَعْثَوْا فِى الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (85)

اور اے میری قوم! انصاف سے ناپ اور تول کو پورا کرو، اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاؤ۔

قوم شعیب پر ناپ تول میں کمی کے باعث پہلے زلزلے کا عذاب آیا لوگ خوف سے گھبرا گئے ۔ابھی زلزلہ ختم نہ ہوا تھا کہ لوگوں پر تپش کا عذاب آ گیا ۔ تپش اتنی شدید تھی کہ ان کی پیاس نہ ختم ہوتی تھی ۔ مجبور ہو کر قوم نے شہر سے باہر بھاگنا چاہا لیکن وہ جہاں بھی جاتے انہیں عذاب الہی سے چھٹکارا نہیں مل سکتا تھا ۔ آخر وہ شہر سے باہر نکلے انہوں نے دیکھا کہ آسان پر ایک بادل کا ٹکڑا نمودار ہوا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس بادل سے آگ برسنے لگی اور جلد ہی ساری قوم ہلاکت کا شکار ہوگئی۔

 مگر حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالی نے بچالیا ۔ یہ سارا عذاب جن برائیوں کی بنا پر ملا تھا ان میں ایک برائی ناپ تول میں کمی بھی تھی ۔ پیمائش میں کم ماپنے والے اور تول میں کم باٹ استعمال کرنے والے کا انجام بہت برا ہے۔ وہ لوگ جو دودھ ماپتے ہیں تو کم ماپتے ہیں، کپڑا بچتے ہیں تو اس کی پیائش کم کر تے ہیں ، اشیاۓ خوردنی بیچتے ہیں تو حقیر اور معمولی سی مقدار میں کمی کر لیتے ہیں ۔ پیکنگ کرتے ہیں تو مقررہ تعداد سے کم پیکنگ کرتے ہیں گویا کہ انسان زندگی کے بے شمار لین دین کے معاملات میں بے ایمانی سے کام لے لیتا ہے اس کا انجام بہت برا ہے جو ماپ تول میں کمی کرتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو ہلاکت اور بربادی میں مبتلا کرتا ہے اور اپنے برے انجام کا خود ہی سامان پیدا کرتا ہے ۔

 وہ حقیر دولت جو وہ کم تول اور کم ماپ سے کماتا ہے وہ اس کے دین و دنیا کو تباہ کر دیتی ہے ۔ وہ کیا جانے کہ طمع اور لالچ انسان کو لے ڈوبتا ہے ۔اس گناہ اور جرم کا خمیازہ دنیا میں بھگتنا پڑتا ہے جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہوتا ہے۔ کم تولنے والوں کے مال میں اکثر خسارہ ہو جاتا ہے ۔ دودھ کم ماپنے والوں کی اکثر بھینسیں مرجاتی ہیں ۔ کم ماپ تول سے کمائی ہوئی دولت عیش وعشرت اور برے کاموں کی نذر ہو جاتی ہے۔

 اکثر یوں بھی ہو جا تا ہے کہ انسان جس اولاد کا پیٹ پالنے کے لئے حرام ذرائع معاش اختیار کرتا ھے تو وہ اولاد نافرمان اور گستاخ ہو جاتی ہے اور اولاد جسے نادان انسان کم ماپ تول سے حرام روزی کما کر کھلاتا ہے اور اولاد کو جوان کر کے اپنے بڑھاپے کا سہارا بناتا ہے ۔ تو وہ اولاد الٹا والدین کو مصائب اور مشکلات میں ڈال دیتی ہے ۔ وہ بڑے ہو کر بدمعاش آواره بدچلن قمار باز شرابی اور برے انسان بن جاتے ہیں جو والدین کے لئے سہارے کی بجاۓ وبال بن جاتی ہے اور یہ سب کچھ ناپ تول میں کمی کے باعث ہوتا ہے اس لئے جو حضرات اس گناہ میں مبتلا ہوں وہ پہلی فرصت میں اللہ کے حضور توبہ کرلیں تاکہ ان کی آخرت سنور جاۓ۔


No comments:

Post a Comment