Islamic Education

Friday, October 1, 2021

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللّٰہ عنہ

 حضرت شیخ عبد القادر جیلانی

Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani
Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jilani


حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ ملک فارس کے شمال میں واقعہ بحیرہ خزر کے جنوبی ساحل سے ملحق ایک چھوٹے سے علاقے گیلان نامی صوبے کی ایک بستی ” نيف “ میں پیدا ہوئے ۔ موجودہ جغرافیائی محل وقوع کے مطابق گیلان کا علاقہ ایران میں واقع ہے ۔ گیلان ہی کو عربی زبان میں جیلان کیا جاتا ہے ۔ ایک دور میں گیلان اور ویام کا علاقہ عراق میں واقع تھا ۔ آپ کی تاریخ پیدائش کتب سیر میں ےیکم رمضان المبارک ۴۷۰ ہجری منقول ہے جبکہ ایک روایت ک مطابق آپ 471 ہجری میں پیدا ہوئے۔

کتاب "مناقب غوثیہ" میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی سے منقول ہے کہ حضور غوث پاک کی ولادت باسعادت کے وقت غیب سے پانچ عظیم الشان کرامتوں کا ظہور ہوا ۔ نمبر 1 روایات میں آتا ہے کہ جس شب حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی پیدا ہوئے اس رات حضرت سید ابوصالح موسی جنگی دوست کو خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت باسعادت نصیب ہوئی ۔ حضور نبی کریم  مع اپنے صحابہ کرام اور اولیائے عظام تشریف لائے اور آپ کو بشارت دی کہ اے ابوصالح ! الله عزوجل نے تمہیں ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی اللہ ہے وہ میرا بیٹا ہے۔ وہ میرا اور اللّٰہ کا محبوب ہے اور عنقریب اس کی اولیاء الله میں وہ شان ہوگی جو انبیاء کرام میں میری شان ہے۔

نمبر 2 حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ جس وقت اس جہان فانی میں تشریف لائے تو آپ کے شانوں کے درمیان حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کے قدموں کا نشان موجود تھا جو کہ واضح دیکھا جا سکتا تھا ۔

نمبر 3 سلطان اولياء حضور غوث پاک کے والدین کو اللہ تعالی نے خواب کے عالم میں یہ بشارت دی کہ جو لڑکا تمہارے ہاں پیدا ہوگا سلطان الاولیاء ہوگا اس کا مخالف گمراہ اور بد دین ہوگا ۔

نمبر 4 جس رات حضور غوث پاک کی ولادت باسعادت ہوئی اس رات اللّٰہ تعالیٰ عزوجل نے اپنی خاص رحمت سے جیلان شریف کی ساری عورتوں کو جن کے ہاں ولادت ہونے والی تھی لڑکا عطا فرمایا اور وہ سب اللہ تعالی کے ولی کامل بنے ۔ 

نمبر5  حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ کی کرامت تو زمانہ رضاعت ہی میں ظاہر ہو گئ تھی ۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ حضور غوث پاک کی ولادت باسعادت رمضان المبارک کے مقدس اور پاکیزہ مہینے میں ہوئی اور آپ دن بھر دودھ نہ پیتے تھے ۔ ولادت باسعادت کے دوسرے سال موسم ابر آلود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو رمضان شریف کا چاند دکھائی نہ دیا اس لیے لوگوں نے میرے پاس آ کر دریافت کیا کہ کیا عبد القادر ( رضی اللّٰہ عنہ ) نے دودھ پیا ہے یا نہیں ؟ تو میں نے ان کو بتایا کہ آج میرے فرزند نے دودھ نہیں پیا ؟ بعدازیں اس کی تصدیق ہو گئی کہ اس دن ماہ رمضان کی پہلی تاریخ تھی۔

حضور غوث پاک نے ابھی ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ آپ کے والد ماجد حضرت سید ابوصالح موسی جنگی دوست رحمتہ اللہ علیہ وصال پا گئے ۔ آپ بچپن میں ہی یتیم ہو گئے اور آپ کے نانا حضرت سید عبداللہ صومعی نے اپنے یتیم نواسے کو اپنے زیر سایہ لے لیا اور آپ کی پرورش پر خصوصی توجہ دینی شروع کر دی ۔ حضور غوث پاک کے فرزند حضرت سید عبدالرزاق کا بیان ہے کہ جب میرے والد بزرگوار بچپن میں کھیل کود کا ارادہ کرتے تو انہیں ایک غیبی ندا سنائی دیتی : اے خدا کے برکت دیئے ہوئے میری طرف میں نے تجھے اپنے لئے پیدا کیا ہے کھیل کود کے لئے پیدا نہیں کیا ۔ اس آواز کو سن کر آپ گھبرا جاتے تھے۔

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللّٰہ عنہ کی پیدائش سے کئی سال قبل ہی متعدد علماء ، صوفیاء اور کشف و کرامات صاحبان نے آپ کی اس دنیا میر تشریف لانے کی بشارت دی اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے بلند منصب علمی قابلیت ، کرامات اور درویشی کا بیان بھی کر دیا۔ جن میں حضرت سید امام حسن عسکری رضی اللّٰہ عنہ، حضرت خواجہ حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت ابو عبداللہ علی رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ محمد شبنکی رحمتہ اللہ علیہ شامل تھے۔ ان بزرگان دین نے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللّٰہ عنہ کے زمانہ سے کافی برس پہلے ہی رحلت فرمائی تھی ۔

امام شریعت و طریقت، محی الدین، غوث الورٰی، غوث العالمین، امام الاولياء، قطب الاقطاب، حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللّٰہ عنہ کا نام نامی سیدنا عبدالقادر ہے ۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام حضرت سید ابوصالح موسی جنگی دوست اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی حضرت سیدہ ام الخیر امته الجبار ہے ۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کا سلسلہ نسب والد بزرگوار کی جانب سے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کے واسطہ سے حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ سے جاملتا ہے ۔ آپ نسب والدہ ماجدہ کی جانب شہید کربلا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ عنہ کے واسط سے حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ سے جا ملتا ہے ۔

حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کا خاندان اولیاء اللہ کا خاندان ہے ۔ آپ کے نانا جان، دادا جان، والد ماجد، والدہ ماجدہ، پھوپھی جان، بھائی اور صاحبزادگان سب اولیاء اللہ ہوئے اور تمام حضرات صاحب کشف و کرامت تھے ۔ حضور غوث پاک کو یہ شرف بھی حاصل ہوا ہے کہ آپ کو پہلے تینوں خلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ سے بھی شرف بھی حاصل ہے ۔ آپ کی نانی کا اسم مبارک ام سلمہ تھا اور ان کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ سے ملتا ہے۔

حضور غوث پاک کے والدین کا تعلق سادات جیسے مقدس گھرانہ سے ہے جن کی عظمت دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ آپ کے نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعی رضی اللّٰہ عنہ کا شمار اپنے دور کے عرفاء کاملین میں ہوتا ہے اور آپ کے والد ماجد حضرت ابوصالح بھی اپنے وقت کے زمانہ اولیاء کرام سے ہیں، اسی طرح آپ کی والدہ ماجدہ ام الخیر اور آپ ان کی پھوپھی جان سیدہ عائشہ کا شمار بھی اللہ تعالی کی نیک اور برگزیدہ خواتین میں ہوتا ہے ۔

روایت میں بیان ہوا ہے کہ آپ جب پڑھنے کے لائق ہو گئے تو انہیں قرآن مجید کی تعلیم کے لیے ایک مدرسے میں لے جایا گیا کہ آپ کو قرآن مجید پڑھنے کے لیے وہاں داخل کروا دیا جائے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جب آپ اپنے استاد کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گئے تو استاد محترم نے کہا پڑھو بیٹے بسم الله الرحمن الرحیم ۔ آپ نے بسم الله الرحمن الرحیم پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ سیپارے زبانی پڑھ ڈالے ۔ آپ کے استاد محترم نے آپ سے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ تم نے یہ کب پڑھے اور کیسے حفظ کے؟ آپ نے جواب دیا کہ میری والدہ ماجدہ کو یہ اٹھارہ سیپارے یاد ہیں اور وہ ان کا اکثر ورد کیا کرتی تھیں جب میں شکم مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ پارے سنتے سنتے مجھے یاد ہو گئے تھے ۔

حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ کا بیان ہے کہ میں دس برس کی عمر میں اپنے شہر کے مکتب میں حصول علم کے لئے جایا کرتا تھا اور اس وقت میرے ساتھ ملائکہ بھی ہوتے تھے جو میرے آکے پیچھے میری حفاظت کی غرض سے چلتے تھے ۔ جب میں مدرسه پہنچتا تھا تو وہ بارہا یہ منادی کرتے تھے کہ اللہ کے ولی کے لئے جگہ خالی کر دو ۔ ایک مرتبہ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس نے فرشتوں کی آواز سن کر کہا کہ یہ نہایت معزز گھرانے کا فرد ہے اور عنقریب اس کو وہ عظمت حاصل ہوگی کہ جس میں کوئی مزاحمت نہ ہوگی اور اس کو ایسا قرب نصیب ہو گا کہ اس کو کوئی فریب نہ دے سکے گا پھر چالیس برس بعد میں نے اس شخص کو پہچانا وہ شخص ابدالوں میں سے تھا۔

حضور غوث پاک نے ابھی جیلان کے مکتب میں زیر تعلیم تھے کہ آپ کے نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعی کو اللہ تعالی کا بلاوہ آ گیا اور وہ عالم فانی سے عالم جاودانی کی جانب چلے گئے ۔ اب آپ کی سر پرستی اور تعلیم وتربیت کا سارا بوجھ آپ کی والدہ ماجدہ پر آن پڑا ۔ اس عارفہ و پاک باطن شخصیت نے کمال صبر و استقامت سے اپنے فرزند جلیل القدر کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری سنبھالی اور آپ نے انہی کے زیر سایہ سن رشد کو پہنچے آپ کا عنفوان شباب بھی آپ کی پاک بازی اور برکات جلیلہ کو اپنے دامن میں لپٹے ہوئے ہے۔

حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی عمر کے ابتدائی سترہ برس اپنے آبائی شہر میں ہی گزارے اور وہیں تعلیم حاصل کی ۔ بعدازاں آپ دل کے دل میں اعلی تعلیم کا شوق بیدار ہوا اور آپ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار والدہ ماجدہ سے کیا جنہوں نے آپ کو بغداد جانے کی اجازت دے دی ۔ حضور غوث پاک سے منقول ہے کہ میں عرفہ کے دن شہر سے باہر نکلا تو راستہ میں کسی زمیندار کا بیل چلا جا رہا تھا ۔ میں اس کے پیچھے ہو لیا ۔ بیل نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگا : اے عبدالقادر ( رضی اللّٰہ عنہ) ! تو اس لئے پیدا نہیں کیا گیا اور نہ ہی تجھے اس کا حکم ہے ۔ بیل کی بات سن کر میں گھبرا گیا اور تیزی سے گھر واپس لوٹ آیا ۔ گھر آ کر میں نے والدہ کو سارا قصہ بیان کیا۔

حضرت شیخ ابوسعید، حضرت شیخ موفق الدین بن قدامة المقدسی، حضرت شیخ ابومحمد عبدالله، حضرت شیخ ابوعبداللہ بن احمد سے منقول ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کا جسم مبارک دبلا تھا، قد مبارک درمیانہ، رنگ گندم گوں، سینه کشاده، داڑھی مبارک گنجان اور چوڑی، ابرو باریک اور ملی ہوئی تھیں ۔ آپ جس وقت کلام فرماتے تھے آپ کی آواز تمام محفل میں گونجتی تھی ۔ آپ کی آواز نزدیک و دور سب کے لئے یکساں ہوتی تھی ۔ آپ جس شخص کی جانب نظر توجہ فرماتے اس کی کائنات بدل جاتی تھی ۔ آپ کا جسم مبارک نہایت ہی نظیف تھا۔ 

حضرت علامہ یوسف نبھانی سے منقول ہے کہ میں ایک طویل عرصہ تک حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی کی خدمت میں رہا لیکن میں نے کبھی آپ کے منہ مبارک سے بلغم نکلتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی آپ کے جسم مبارک پر مکھی بیٹھی ۔ حضرت ابوعبداللہ محمد  فرماتے ہیں کہ حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کا پسینہ مبارک خوشبودار تھا ۔ حضور سیدنا غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی کا لباس نہایت سادہ اور صاف ہوتا تھا ۔ آپ  کوئی بھی کام خلاف شریعت نہ کرتے تھے ۔

حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ 488 ہجری میں اٹھارہ برس کی عمر میں والده ماجدہ کی اجازت کے بعد بغداد روانہ ہوئے ۔ حضور غوث پاک فرماتے ہیں کہ جب میں بغداد کے لئے روانہ ہونے لگا تو والدہ ماجدہ نے مجھ سے فرمایا کہ تمہارے والد نے ترکہ میں اسی دینار چھوڑے تھے ۔ چالیس دینار تمہارے بھائی کے لئے ہیں اور چالیس تمہارے ہیں ۔ تمہارے دینار میں نے تمہاری قمیض کے اندر سی دیئے ہیں ۔ میں نے والدہ ماجدہ سے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کے احکامات کی پابندی کرنا حرام سے پرہیز کرنا تقدیر الہی پر راضی رہنا اور خواہ کیسے بھی حالات ہوں جھوٹ نہ بولنا ۔ میری والدہ اس بات کو جانتی تھیں کہ بغداد میرے لئے ایک نیا شہر ہے اور وہاں میرا کوئی دوست ساتھی یا غمخوار موجود نہیں ہے اس لئے انہوں نے ایک سرد آہ لینے کے بعد مجھے اللّٰہ کے سپرد کیا۔

حضور غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بغداد جانے کے لئے ایک قافلے میں شامل ہو گیا ۔ جب یہ قافلہ شہر کی حدود سے باہر نکالا تو راستہ میں 60 ڈاکوں نے قافلے پر حملہ کر دیا اور قافلے کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا ۔ لوٹ مار کے دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا اور پوچھا کہ اے لڑکے ا تیرے پاس کیا ہے ؟ میں نے اسے بتایا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں ۔ وہ شخص میری بات کو مذاق سمجھ کر آگے بڑھ گیا ۔ اس کے بعد ایک اور شخص میرے پاس آیا اور اس نے بھی مجھ سے یہی پوچھا اور میں نے اسے بھی یہی بتایا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں ۔ وہ شخص بھی میری بات کا مذاق اڑا کر آگے بڑھد گیا ۔ کچھ دیر بعد یہ دونوں ڈاکو اپنے سردار کے پاس گئے اور اسے میری بات بتائی ۔ اس سردار نے مجھے بلایا اور کہا کہ کیا واقعی تمہارے پاس چالیس دینار ہیں ۔ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میری بغل کے نیچے سلے ہوئے ہیں ۔ اس نے قمیض کو ادھیڑ کر دیکھا تو اس میں سے چالیس دینار برآمد ہو گئے ۔ وہ سردار حیران ہوا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تم نے اسے راز کیوں نہ رکھا ؟ تمہیں کچھ بتانے کی کیا ضرورت تھی ؟ 

میں نے جواب دیا کہ میری والدہ نے سفر پر نکلتے وقت اس بات کی نصیحت کی تھی کہ بیٹا کیسے بھی حالات ہوں تم جھوٹ نہ بولتا لہذا جب مجھ سے پوچھا گیا کہ میرے پاس کیا ہے تو میں نے سچ بتا دیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری بات سن کر اس سردار کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا کہ تم نے اپنی والدہ کا عہد نہیں توڑا اور ایک میں ہوں جو سالہا سال سے رب کے عہد کو توڑ رہا ہوں اور لوگوں کو لوٹ رہا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ سردار میرے قدموں میں گر پڑا اور توبہ کرنے کے بعد تمام مال و اسباب قافلے والوں کو واپس کر دیا ۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی شخص نے میرے دست مبارک پر توبہ کی ۔ 

حضور غوث پاک اس دور کے بغداد کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بغداد علوم و فنون کا ایک بہت بڑا مرکز تھا مگر سیاسی اعتبار سے اسے استحکام حاصل نہیں تھا اور حکمرانوں کو تعلیم و تعلیمی اداروں سے کسی بھی قسم کا کوئی دلی لگاؤ نہیں تھا ۔ طلباء کو حصول علم کے لئے اپنی ذاتی جیب سے خرچ کرنا پڑتا تھا جس کے لئے وہ محنت مزدوری بھی کرتے تھے اور کئی کئی روز فاقہ کشی بھی کرتے تھے۔

حضور غوث پاک نے نو سال تک بغداد میں علم حاصل کیا ۔ اس دوران آپ سخت مجاہدے بھی کرتے رہے ۔ والدہ ماجدہ نے آپ کو جو چالیس دینار دیئے تھے وہ جلد ہی ختم ہو گئے ۔ آپ کو گزر اوقات کے لئے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس سے آپ کی استقامت میں کسی قسم کا کوئی فرق نہ آیا ۔ حضرت شخ طلہ بن مظفر سے منقول ہے کہ حضور غوث پاک نے مجھے بتایا کہ بغداد میں قیام کے دوران اکثر و بیشتر مجھے کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا حتی کہ ایک مرتبہ میں بیسں روز تک فاقے سے رہا تو میں ایوان کسری کی جانب چل پڑا وہاں پہن کر دیکھا کہ چالیس اولیاء اللہ مجھ سے پہلے وہاں موجود تھے ۔ مجھے یہ دیکھ کر شرمندگی ہوئی اور میں واپس ہولیا ۔ اس دوران میری کی ملاقات میرے ایک ہم وطن سے ہوئی اس نے مجھے کچھ رقم دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری والدہ ماجدہ نے دی ہے ۔ میں اس شخص کو جانتا بھی نہ تھا ۔ میں نے وہ رقم لی اور واپس ان اولیاء کے پاس آیا اور ان میں رقم تقسیم کی اور بقدر ضرورت خود بھی رکھ لی ۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ رقم کہاں سے آئی ؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ میری والدہ نے دی ہے اور مجھے یہ اچھا نہ لگا کہ میں یہ ساری رقم خود رکھ لیتا ۔ پھر میں نے بغداد واپس آ کر باقی ماندہ رقم سے کھانا خریدا اور فقراء کو بلا کر اپنے ساتھ بٹھایا اور ہم نے کھانا تناول فرمایا ۔

حضور سیدنا غوث الاعظم نے بغداد شریف آمد کے بعد حضرت حماد بن مسلم سے روحانی فیوض و برکات حاصل کی ۔ بعدازاں آپ نے پچیس سال تک سخت مجاہدے کئے ۔ آپ شریعت پرسختی سے عمل کرتے تھے۔ حضور سیدنا غوث الاعظم نے 496 ہجری میں اپنی ظاہری تعلیم مکمل کرلی تھی ۔ جب آپ پچیس سالہ مجاہدات کے بعد واپس بغداد تشریف لائے تو آپ نے حضرت شیخ ابوسعید مخزومی کے مدرسہ میں تدریسی فرائض سرانجام دینا شروع کر دیئے ۔ حضور سیدنا غوث الاعظم کے لئے فی الحال تدریسی مصروفیات کے علاوہ کوئی کام نہ تھا ۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت سے آپ کے نام کا شہرہ کچھ ہی دنوں میں سارے بغداد میں پھیل گئے ۔ طلباء دور راز کے علاقوں سے علم کے حصول کے لئے آنے لگے ۔ طلباء کی تعداد جب مزید پڑھنا شروع ہوگئی تو اردگرد کے کئی مکانات کو خرید کر مدرسہ میں شامل کر لیا گیا۔

حضور غوث پاک فرماتے ہیں کہ ۵۱۱ ہجری میں میں برہنہ پاؤں بغداد شریف کی طرف تشریف لا رہا تھا کہ راستہ میں مجھے ایک بیمار کمزور اور متغیر رنگ والا ایک شخص ملا ۔ جب میں اس شخص کے نزدیک آیا تو اس شخص نے میرا نام لے کر مجھے پکارا اور مجھے سلام کیا ۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس شخص نے مجھ سے کہا کہ مجھے سہارا دو ۔ چنانچہ میں نے اسے سہارا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص تندرست و توانا ہو گیا اور اس کے چہرے پر توانائی کی لہر دوڑ گئی ۔ میں نے جب یہ دیکھا تو گھبرا گیا ۔ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔ اس شخص کی بات سن کر میرے چہرے پر اطمینان کی کیفیت طاری ہوئی ۔ پھر اس شخص نے مجھ سے پوچھا کہ تم مجھے جانتے ہو ؟ میں نے انکار کر دیا تو اس نے کہا  میں دین اسلام ہوں اور میں قریب المرگ تھا ۔ اللہ عز وجل نے مجھے تمہارے ذریعے دوبارہ سے زندہ کر دیا ہے ۔

 حضور غوث پاک اور فرماتے ہیں کہ پھر اس شخص سے رخصت ہونے کے بعد میں بغداد شریف پہنچا اور جامع مسجد میں نماز کی غرض سے داخل ہوا ۔ ابھی میں جامع مسجد کے دروازے میں ہی تھا کہ ایک شخص آگے  بڑھا اور اس نے میرے جوتے پکڑ کر مجھے سیدی محی الدین کہہ کر پکارا ۔ پھر جب میں نماز کے لئے کھڑا ہوا تو چاروں اطراف سے لوگ آ کر میرے ہاتھ چومنے لگے اور مجھے "یامحی الدین" کہہ کر پکارنے لگے اور اس لقب سے مجھے پہلے کسی نے کبھی نہیں پکارا تھا۔

حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللّٰہ عنہ سے منقول ہے کہ مجھے حالت بیداری میں حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم کی زیارت با سعادت نصیب ہوئی ۔ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ میرے بیٹے ! تم وعظ و نصیحت کرو ۔ میں نے عرض کیا : میرے والد بزرگوار ! میں عجمی ہوں اور علماۓ بغداد کے سامنے تقریر کرنا میرے لئے ممکن نہ ہو گا ۔ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے منہ کھولنے کا حکم دیا اور جب میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے سات مرتبہ میرے منہ میں تھوکا اور فرمایا کہ اب تم وعظ کرو اور لوگوں کو حق کی دعوت دو ۔ پھر امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللّٰہ عنہ تشریف لائے ۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ بیٹے ! اپنا منہ کھولو ۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے چھ مرتبہ میرے منہ میں تھوکا اور فرمایا کہ وعظ ونصیحت کرو ۔ میں نے دریافت کیا کہ حضور ! آپ نے میرے منہ میں چھ مرتبہ تھوکا جبکہ حضور نبی کریم نے سات مرتبہ تھوکا ۔ امیر المومنین حضرت سیدنا على المرتضی نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم کے ادب کی وجہ سے ایسا کیا ۔ پھر حضور نبی کریم نے نے مجھے خلعت پہنائی اور فرمایا کہ یہ تمہاری ولایت کی خلعت ہے اور یہ اقطاب اولیاء کے لئے مخصوص ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد اللہ عزوجل نے مجھ پر اپنے بے پناہ فیوض و برکات نازل فرمائے اور میری زبان میں تاثیر عطا فرمائی میں جس شخص کو بھی دعوت حق دیتا وہ میری دعوت کو قبول کرتا اور میرے وعظ میں لوگوں کا ایک ہجوم موجود رہتا ۔

حضرت غوث الثقلین شاہ محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللّٰہ عنہ منبر پر جلوہ افروز تھے اور ایک بلیغ خطبے کے دوران یک لخت آپ پر کشف کی حالت طاری ہوئی اور آپ نے الله تعالی کے حکم سے یہ ارشاد فر مایا کہ؛
میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے ۔ ‘ ‘ 
ان سب نے آپ ان کا یہ ارشاد سن کر اپنی گردنیں خم کر دیں ان کے علاوہ کرہ ارض پر جہاں جہاں کوئی قطب ، ابدال یا ولی تھا اس نے بھی آپ کی آواز سنی اور اپنی گردن جھکا دی ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ فرمان سنتے ہی شیخ علی بن الہیتی منبر کے پاس گئے اور حضرت غوث اعظم کا قدم مبارک پکڑ کر اپنی گردن پر رکھا ۔ مجلس میں موجود سب اولیاء اللہ نے اپنی گردنیں جھکا دیں ۔
مشائخ کی ایک عظیم جماعت سے منقول ہے کہ حضرت سید عبدالقادر جیلانی نے جب یہ اعلان فرمایا تو اس وقت ایک بہت بڑی جماعت ہوا میں اڑتی ہوئی نظر آئی ، وہ جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آئی اور سیدنا حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو آپ ان کی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کا حکم فرمایا تھا ۔ جب آپ نے اعلان فرمایا تو تمام اولیا ء الرحمن نے آپ کو مبارکباد دی۔
تصوف کی دنیا میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللّٰہ عنہ ایک ایسی مبارک ہستی ہیں جس کی شان و عظمت کے حوالے سے بزرگان دین آپ کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں یہ سلسلہ آپ کے زمانہ ظہور سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ حضرت ابوعبدالله محمد بغدادی، حضرت شیخ ابوعبدالله محمد بن یوسف، حافظ ابوسعید عبدالکریم سے مروی ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم رقیق القلب، شیریں زبان، رحم دل، سخی، مہمان نواز، بامروت اور دیگر تمام اخلاقی عادات کے منبع تھے ۔ آپ کی ذات بابرکات مجمع البرکات تھی اور آپ تمام اوصاف حمیدہ سے مزین تھے ۔
حضور غوث پاک الله تعالی کے سچے دوست تھے ان کی زندگی کا بیشتر حصہ دین حق کے پرچار اور احیائے کتاب وسنت میں گزرا آپ کی تعلیمات اور وعظوں میں اللہ تعالی کی توحید اور حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سچے دل سے اتباع پر بہت زور دیا گیا ہے ۔ آپ نے شریعت اور طریقت کو لازم وملزوم قرار دیا ہے آپ کے نزدیک اللہ تعالی کی معرفت کا راستہ صرف اتباع سنت کے ذریعے طریقت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہے ۔ آپ کے سلسلہ تصوف کا تمام تر ماخذ قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور انہی کی روشنی میں آپ نے مخلوق خدا کو علم و عرفان سے اپنے قلوب کو روشن کرنے کی دعوت دی ہے ۔
حضرت سید غوث اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے بے شمار طالبان حق و صداقت اور متلاشیان علم ومعرفت کو اپنی روحانی توبہ کے باطنی انوارات سے مزین اور مستفید فرما کر راه معرفت پر گامزن فرمایا آپ نے لوگوں کی تربیت اور اصلاح کا یہ سلسلہ تحصیل علم کے بعد شروع کیا جو آپ کی حیات میں تادم آخر جاری رہا ۔ مگر آپ نے احیائے دین کا زیادہ تر کام درس و تدرلیں اور مواعظ حسنہ کے ذریعے سرانجام دیا اور مواعظ حسنہ کے ساتھ ساتھ آپ نے چند گراں قدر تصانیف بھی کیں جو آپ ان کی علمی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں؛ غنیتہ الطالبین، فتوح الغیب، فتح ربانی، مکتوبات محبوب سبحانی، سرالاسرار فیمایحتاج الیہ الابرار، رسالہ غوث اعظم، جلاء الخواطر، السبوع شریف، 
درودکبریت احمر اور درود اکسیر اعظم۔
حضور سیدنا غوث الاعظم نے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز زہدومجاہدہ کے بعد کیا جبکہ آپ کی عمر مبارک ا ۵ سال سے زائد ہو چکی تھی ۔ اس عمر میں بھی آپ نے اتباع سنت کے لیے نکاح کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ مدت سے میں اتباع نبی اکرم میں نکاح کا ارادہ رکھتا تھا مگر اس خیال سے نکاح کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا کہ کہیں شادی میری ریاضت اور عبادت میں رکاوٹ نہ بن جائے لیکن اللہ تعالی نے ہر کام کے ہونے کا ایک وقت مقر کر رکھا ہے لہذا جب وہ وقت آیا تو الله تعالی کے فضل وکرم سے میری شادی ہوگئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے چار بیویاں عطا کیں اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے انس ومحبت رکھتی تھی۔
آپ کی ازواج کے اسم گرامی یہ ہیں ۔ حضرت سیدہ بی بی مدینہ، حضرت سیدہ بی بی صادقہ، حضرت سیدہ بی بی مومنہ، حضرت سیدہ بی بی محبوبہ ۔ روایات کے مطابق حضور سیدنا غوث الا عظم کی ان چاروں ازواج سے آپ کے ستائیس بیٹے اور بائیسں بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ آپ کے بیٹوں کے علاوہ آپ کی بیٹیوں نے بھی تصوف کے میدان میں اعلی مقام حاصل کیا ۔ آپ کی تمام ازواج آپ کا بے حد ادب کرتی تھیں اور آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھیں ۔ آپ بھی اپنی بیویوں کا خاص خیال رکھتے۔ آپ کے دس بیٹوں اور چار بیٹیوں کے نام کتب میں موجود ہیں۔ بیٹوں کے اسم گرامی، حضرت شیخ سید عبدالوہاب، حضرت شیخ سید عیسیٰ ۔ حضرت شیخ سید ابوبکر عبدالعزیز ۔ حضرت شیخ سید عبدالرزاق، حضرت شیخ سید عبدالجبار، حضرت شیخ سید یحییٰ ۔ حضرت شیخ سید ابراہیم، حضرت شیخ سید محمد، حضرت شیخ سید عبداللہ، حضرت شیخ سید موسیٰ اود بیٹیوں کے اسم گرامی حضرت سیدہ حدیحبہ، حضرت سیدہ عائشہ، حضرت سیدہ زہرہ، حضرت سیدہ فاطمہ الثمینہ ۔
حضور سیدنا غوث الاعظم کی عمر مبارک اکبانوے برس ہو چکی تھی ۔ آپ ا نے اپنے گھر والوں کو اپنے وصال کی خبر دی تو سب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ آپ اب علیل رہنے لگے تھے ۔ آپ کی ذات بابرکات کا فیضان جس سے ایک عالم سیراب ہوا تھا اب آپ کے جانے کا وقت آچکا تھا ۔ آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت سید عبد الوہاب سے فرمایا کہ تم میرے پاس سے ہٹ جاؤ کیونکہ میں بظاہر تمہارے ساتھ ہوں مگر میرا باطن صرف اللہ کے ساتھ ہے اور اس وقت کچھ لوگ یہاں تشریف لانے والے ہیں تم ان کے لئے جگہ فراخ کر دو ۔ اا ربیع الثانی بروز سوموار آپ نے عشاء کی نماز کے وقت تازه غسل فرمایا اور دیر تک سجدہ میں رہے اور اپنے تمام مریدین اہل خانہ اور دیگر کے لئے دعا مانگتے رہے ۔ جب آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا تو غیب سے ندا آئی : اے نفس مطمئنه ! اپنے پروردگار کی جانب لوٹ آ تو اپنے پروردگار سے راضی ہوا اور وہ تجھ سے راضی ہوا بےشک تو میرے ان بندوں میں شامل ہے جو جنت میں داخل ہوں گے ۔ حضور سیدنا غوث الاعظم ان کلمات کو سننے کے بعد بستر پر لیٹ گئے ۔ آپ کی زبان مبارک سے ذیل کے کلمات جاری ہوئے : میں رب العزت سے مدد لیتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے جو زندہ ہے نہ اسے موت ہے اور نہ خوف، پاک ہے وہ جو قدرت سے باعزت ہے جو بندوں پر موت طاری کرنے پر قادر ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے رسول ہیں ۔ اس کے بعد آپ ان کی زبان مبارک سے اللہ اللہ کا ورد جاری ہو گیا اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی ۔
 انا لله وانا اليه راجعون

2 comments: