احوال قبر بوجہ بےپردگی
![]() |
The condition of the grave is unveiled |
یہ واقع گلگت میں پیش آیا تھا ۔ ایک شخص قبرستان کے پاس سے گزر رہا تھا ۔ اس نے کسی قبر سے آواز سنی کہ مجھے نکالو، میں زندہ ہوں۔ جب ایک دو مرتبہ اس نے آواز سنی تو اس نے سمجھا کہ یہ میرا وہم اور خیال ہے ، کوئی آواز نہیں آرہی ہے ۔ لیکن جب مسلسل اس نے یہ آواز سنی تو اس کو یقین ہونے لگا ۔ چنانچہ قریب میں ایک بستی تھی ، وہ اس میں آیا اور لوگوں کو اس آواز کے بارے میں بتا کر کہا کہ تم بھی چلو اور اس آواز کو سنو ۔ چنانچہ کچھ لوگ اس کے ساتھ آئے ۔ انہوں نے بھی یہی آواز سنی اور سب نے یقین کر لیا کہ واقعی یه آواز قبر میں سے آرہی ہے ۔ اب یقین ہونے کے بعد ان لوگوں کو مسئلہ پوچھنے کی فکر ہوئی کہ پہلے علماء سے مسلہ معلوم کرو کہ قبر کھولنا جائز ہے یا نہیں ؟ چنانچہ وہ لوگ محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس طرح قبر میں سے آواز آرہی ہے ، اور میت یہ کہہ رہی ہے مجھے قبر میں سے نکالو ، میں زندہ ہوں ۔ امام صاحب نے فرمایا کہ اگر تمہیں اس کے زندہ ہونے کا یقین ہو گیا ہے تو قبرکھول لو اور اس کو باہر نکال لو ۔ چنانچہ یہ لوگ ہمت کر کے قبرستان گئے اور جا کر قبر کھولی ۔ اب جونہی تخت ہٹایا تو دیکھا کہ اندر ایک عورت بیٹھی ہوئی ہے اور اس کا کفن گل چکا ہے اور وہ عورت کہہ رہی ہے کہ جلدی سے میرے گھر سے میرے کپڑے لاو ۔ میں پہن کر باہر نکلوں گی ۔ چنانچہ لوگ فوراً دوڑ کر اس کے گھر گئے اور جا کر اس کے گھر والوں کو یہ واقعہ بتایا اور اس کے کپڑے چادر وغیرہ لے کر آئے اور لاکر قبر کے اندر پھینک دیئے ۔ اس عورت نے ان کپڑوں کو پہنا اور چادر اپنے اوپر ڈالی اور پھر تیزی سے بجلی کی طرح اپنی قبر سے نکلی اور دوڑتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بھاگی اور گھر جا کر ایک کمرے میں چھپ کر اندر سے کنڈی لگالی ۔ اب جو لوگ قبرستان آئے تھے ، دوڑ کر اس کے گھر پہنچے اور معلوم ہوا کہ اس نے کمرے کے اندر سے کنڈی لگائی ہے ۔ ان لوگوں نے دستک دی کہ کنڈی کھولو ۔ اندر سے اس عورت نے جواب دیا : میں کنڈی تو کھول دوں گی لیکن کمرے کے اندر وہ شخص داخل ہوجس کے اندر مجھے دیکھنے کی تاب ہو ۔ اس لئے کہ اس وقت میری حالت ایسی ہے کہ ہر آدمی مجھے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے گا ۔ لہذا کوئی دل گردے والا شخص اندر آئے اور آ کر میری حالت دیکھے ۔ اب سب لوگ اندر جانے سے ڈر رہے تھے مگر دو چار آدمی جو مضبوط دل والے تھے ، انہوں نے کہا کہ تم کنڈی کھولو ہم اندر آئیں گے ۔ چنانچہ اس نے کنڈی کھول دی اور لوگ اندر چلے گئے ۔
مزید پڑھیں؛ بےپردگی
اندر وہ عورت اپنے آپ کو چادر میں چھپائے بیٹھی تھی ۔ جب لوگ اندر پہنچے تو اس عورت نے سب سے پہلے اپنا سر کھولا ۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اس کے سر پر ایک بھی بال نہیں ہے ۔ وہ بالکل خالی کھوپڑی ہے ۔ نہ اس پر بال ہیں اور نہ کھال ہے ، صرف خالی ہڈی ہی ہڈی ہے ۔ لوگوں نے اس سے پوچھا : تیرے بال کہاں گئے ؟ اس عورت نے جواب دیا کہ جب میں زندہ تھی تو ننگے سر گھر سے باہر نکلا کرتی تھی ۔ پھر مرنے کے بعد جب میں قبر میں لائی گئی تو فرشتوں نے میرا ایک ایک بال نوچا اور اس نوچنے کے نتیجے میں بال کے ساتھ کھال بھی نکل گئی ۔ اب میرے سر پر نہ بال ہیں اور کھال ہے ۔
اس کے بعد اس عورت نے اپنا منہ کھولا۔ جب لوگوں نے اس کا منہ دیکھا تو وہ اتنا خوفناک ہو چکا تھا کہ سوائے دانتوں کے کچھ نظر نہ آیا ۔ نہ اوپر کا ہونٹ موجود تھا اور نہ نیچے کا ہونٹ موجود تھا بلکہ بتیس دانت سامنے جڑے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ سوچئے اگر کسی انسان کے صرف دانت ہی دانت نظر آئیں تو کتنا ڈر معلوم ہوتا ہے ۔ اب ان لوگوں نے اس عورت سے پوچھا : تیرے ہونٹ کہاں گئے ؟ اس عورت نے جواب دیا ۔ میں اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگا کر نامحرم مردوں کے سامنے جایا کرتی تھی ، اس کی سزا میں میرے ہونٹ کاٹ لئے گئے ، اس لئے اب میرے چہرے پر ہونٹ نہیں ہیں ۔
اس کے بعد اس عورت نے اپنے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں کھولیں ۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں میں ایک بھی ناخن نہیں تھا ۔ تمام انگلیوں کے ناخن غائب تھے ۔ اس سے پوچھا : تیری انگلیوں کے ناخن کہاں گئے ؟ اس عورت نے جواب دیا : ناخن پالش لگانے کی وجہ سے میرا ایک ایک ناخن کھینچ لیا گیا ہے ۔ چونکہ میں یہ سارے کام کر کے گھر سے باہر نکلا کرتی تھی ، اس لئے جیسے ہی میں مرنے کے بعد قبر میں پہنچی تو میرے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا اور مجھے یہ سزاملی کہ میرے سر کے بال بھی نوچ لے گئے میرے ہونٹ بھی کاٹ دیئے گئے اور ناخن بھی کھینچ لے گئے ۔ اتنی باتیں کرنے کے بعد وہ بے ہوش ہوگئی اور مردہ اور بے جان ہوگئی جیسے لاش ہوتی ہے ۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ اس کو قبرستان میں پہنچا دیا ۔
اللہ تعالی کو یہ عبرت دکھانی مقصود تھی کہ دیکھو ! اس عورت کا کیا انجام ھوا۔ اور اس کو کتنا ہولناک عذاب دیا گیا۔ بے پردہ خواتین اس واقعہ سے عبرت لیں اور ان گناہوں سے توبہ کریں ۔
No comments:
Post a Comment