Islamic Education

Sunday, September 12, 2021

اسلام کو درپیش چیلنجز

Challenges to Islam



 آج امت مسلمہ کا کاروان تاریخ کے جس نازک موڑ پر ہے ۔ اور جس قدر کارواں کے اردگرد خطرات اور مختلف قسم کی ہےچائینوں کے سلسلےموجود ہیں ۔ شاید پوری تاریخ میں اھل حق کو ایسی مشکلات کا سامنا نہ ہوا ہو ۔ جس طرف بھی ہم توجہ کرتے ہیں ۔ اور جہاں تک بھی دھیان جاتا ہے ۔ ہر طرف اسلام کے خلاف پراپیگنڈے ,تدبیریں ,سازشیں اور حملے نظر آرہے ہیں ۔ مسلم امہ کا خون بہہ رہا ہے اور ظلم وستم کے یہ سلسلے اس امت کے وجود کو مٹانے کے لیے بڑی بے جگری سے اور بڑی بے دردی سے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہے۔

  کچھ دیر اس بارے بھی سوچیں کہ آخر ایسا کیوں ہے اور ہمیں کس طرح ان تمام خطرات سے بچ کر منزل تک پہنچتا ہے ۔ کوئی ایک چیلنج نہیں کوئی ایک خطرہ نہیں برطرف دھندلکے ہیں ۔ ہرطرف اندھیرے ہیں ۔ راستے اجالوں کے ظلمتوں نے گھیرے ہیں جدھر دیکھتے ہیں ۔ ایسے مناظر نظر آتے ہیں ۔ کہ جن سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ اور جگر پانی پانی ہو جاتا ہے ۔ کائنات کی امانتوں کے سب سے بڑے امین اور امتوں کی تاریخ میں سیادت اور سرداری کا منصب پانے والے آج ان کے وجود پر جتنے زخم ہیں ۔ اور آج ملت کا پیراہن جس قدر تار تار کیا جارہا ہے ۔ یہ کائنات کی امامت کے منصب پر فائز ہونے والے لوگ ایسے زخموں کے جھرمٹ میں کتنی مشکل سے اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔

 وہ فلسطین کی مقدس وادی جہاں سے کلمہ حق سر بلند کرنے والوں کو کلمہ حق کی آواز بلند کرنے والوں کو گھروں سے نکال دیا گیا جو خیموں میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔ وہ عراق کی مقدس سرزمین جو اللہ کے پیغمبروں کی اماموں کی صحابہ کرام رضی اشتعالی عنہم اور اولیا کرام کی سرزمین ہے ۔ وہاں کب سے کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے ۔ ہمارے پڑوس میں افغانستان کی مردم خیز زمین کے اندر دین نے کس قدر اپنے ہتھیاروں کو آزمایا ہے ۔ اور کابل وقندھار اور دشت لیلی تک خون کا ایک بہتا ہوا دریا نظر آیا ہے ۔ آج پاکستان کو زیر دام لانے کے ساتھ ساتھ شام اور ایران کو مٹانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔ پوری کائنات میں مسلم کا خون ارزاں ہو گیا ہے ۔ 

کشمیر کی سنگلاخ چٹانوں پر کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ اور مسلسل وہ اپنی شھادتوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمارے لئے کچھ تباہیوں اور بربادیوں کے وہ مناظر ہیں ۔ کہ جس کا سلسلہ مختلف زلزلوں سے وابستہ ہو چکا ہے ۔  ہمیں اپنی کتاب سے پوچھنا چاہیے ۔ اپنے قرآن سے پوچھنا چاہیے ۔ ہمارا اپنا رب اور اس کا فرمان ہماری رہنمائی کے لیے قیامت تک موجود ہے ۔ کہ آخر وجہ کیا ہے ۔ دن ہمیں کیوں دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔ رب کعب کی قسم اس قرآن میں آج بھی وہ تجلی موجود ہے کہ اگر ہم آنکھوں میں سرمہ اسکا لگالیں گے ۔ دنیا کے اندھیر ے ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑسکیں گے ۔ اور ان شاءاللہ امت کا کارواں سلامتی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ جائیگا ؛ 

سارا بدن ہی ملت کا زخمی ہے تو روئی کس کس مقام پر رکھ کے ہم اس کے آرام کا انتظار کریں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان حالات کا صدیوں قبل خود مشاہدہ کیا تھا ۔ اور اس وقت جوارشاد فرمایا تھا یہ چیلنجز اور خطرات جو آج پیدا ہورہے ہیں ۔ نگاه نبوت کے سامنے اس وقت موجود تھے ۔ اور رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بیان بھی کیا تھا ۔ اور ان کا حل بھی عطا فرمایا تھا ۔ کتنی ہماری کم بختی ہوگی کہ جب سب کچھ ہمارے لئے وہ بیان کر کے گئے ۔ ہم وہ پڑھ نہ سکیں سن نہ سکیں اور اگر پڑھ سن لیں تو اس پر عمل نہ کرسکیں، تو خود ہماری کوتاہی ہے ۔ ہماری غفلت ہے ۔ میرے نبی علیہ الصلوة والسلام ختم نبوت کا تاج پہن کے آئے ہیں ۔ قیامت تک کے ہر خطرے کی نشاندہی بھی کی ہے اور قیامت تک ہر خطرے سے بچانے کے لیے امت کو حل بھی عطا فرمایا ہے ۔

 حضرت ثوبان اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! وہ وقت آ رہا ہے اور جلد آ جائے گا ۔ کہ جب سارا کفر متحد ہو جائیگا ۔ ساری کفر کی طاقتیں یکجا ہو جائیں گی ۔  وہ سارے ملکر ایک دوسرے کوتمھارے بارے میں یوں بلائیں گے جسطرح پلیٹ ایک ہو اور کھانے والے بہت سے ہوں اور آپس میں ان کا اتفاق بھی ہوتو سارے وہ ایک پلیٹ کی طرف سب کو بلا رہے ہوتے ہیں ۔ تو فرمایا ایسی صورتحال امت کے اندر ایک وقت پیدا ہو جائیگی ۔ یہ تمام ملکر امت کو مٹانے کے در پے ہوجائیں گے ۔ اور اتنی دلچسپی ہوگی ۔ اور ان کواتنی بھوک ہوگی اس پلیٹ کو کھانے کے لیے کہ ہر ایک دوسرے کو آواز دے گا ۔ کہ آو تم بھی کھا لو، آو تم بھی کھالو ۔ میری امت ایک پلیٹ کی طرح درمیان میں ہوگی اور دائیں بائیں چاروں طرف دشمن اتحاد کر کے آجائیں گے ۔ اور ایک دوسرے کو دعوت دے رہے ہونگے آو تمھارا حصہ بھی ہے اور تمھارا حصہ بھی ہے ۔

یہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ نے اس وقت دیکھا تھا ۔ آج کے غیر مسلم اتحاد اور اقوام متحدہ کے زیر سایہ تمام قسم کے بدمعاش لٹیرے حکمرانوں کے جو ٹولے ہیں ۔ ان کی یکجہتیاں اور ان کے مختلف اتحاد وہ تو بعد میں بنے ہیں ۔ رسول اکرم نے اس وقت خبر دی تھی ۔ فرمایا تھا کہ جسطرح ایک پلیٹ کی طرف سارے جھپٹیں گے اس طرح میری امت کی طرف ساری فوجیں جھپٹ رہی ہوں گی ۔ تم نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ وہ عراق اور افغانستان میں بہتا ہوا خون کادریا ہو یا  فلسطین اور کشمیر کا مسلہ ہو کہ کس طرح امت مسلمہ پر ہر طرف سے بھیٹر یے جھپٹ رہے ہیں ۔ اور اس امت کے وجود کو پاش پاش کرنا چاہتے ہیں ۔ اور تار تار کرنا چاہتے ہیں اور اس کو لہو لہان کرنا چاہتے ہیں۔

آج کی اس صورتحال کے اندر مسلمان وہ کیسا مسلمان ہوسکتا ہے ۔ کہ جن کو کشمیر میں بہتا ہوا خون نظر نہ آئے ۔ جس کو افغانستان کے حریت پسند لوگوں کے ان جذبات کے بارے میں کوئی بے چینی پیدا نہ ہو کہ جن کو پکڑ کے یوں جکڑ ا گیا جسطرح کہ جانوروں کو پنجروں میں بند کر دیا جاتا ہے ۔ اور دشت لیلی کے اس صحرا کے اندر ہزاروں کو یوں تہ تیغ کیا گیا کہ ہے ۔ ماؤں کے بیٹے نہ ہوں، درختوں کے اوپر لگنے والا کوئی پھل ہو ۔ جس کو ہے دردی کے ساتھ توڑ دیا جائے ۔ آج وہ مقدس سرزمین جوعراق کی سرزمین ہے ۔ وہاں پر ابراهیم علیہ السلام کی نسل موجود ہے ۔ اس زمین کو عقل العرب  کہا جاتا ہے ۔ اور جس کو’روضته الصاالحین ‘ ‘ کہا جاتا ہے ۔ جس کو مہد الاولیاء کہا جا تا ہے ۔ حجاز مقدس کے بعد جو سب سے زیادہ اسلام کے لیے مقدس سرزمین ہے اور آ ثار کے لحاظ سے فنون اور علوم کی ترویج و اشاعت کے لحاظ سے ، اور کشمیر کے دیس میں خون بہتا رہے اور میں اس کا احساس نہ ہو ممکن نہیں جو مومن ہے وہ ضرور تڑپتا ہے ۔ اسکے دل سے آہیں نکلتی ہیں ۔ وہ ضرور سوچتا ہے اگر کرسکتا ہے ، تو زور بازو سے بھی کرتا ہے ۔ اگر کر سکتا ہے ، تو کلمہ حق بلند کرتا ہے ۔ ورنہ دل میں بے چینی تو ضرور محسوس کرتا ہے ۔ اس واسطے مسلمان ہونے کے نصاب کی آخری شرط ہے ۔

 نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو مسلم امہ کا درد محسوس نہیں ہوتا وہ میرا امتی ہی نہیں ہے ۔ وہ ہم سے نہیں، وہ ہمارا نہیں، وہ میرا نہیں، مسلمانوں کے حالات پر جس کو تکلیف نہیں ہوتی ۔ جب مسلم امہ کو زوال آئے اور مختلف مسائل پیدا ہو جائیں وہ تدبر نہ کرے، وہ سوچنا نہیں ہے وہ متوجہ نہیں ہوتا تو میرے محبوب علیہ الصلوة والسلام ارشار فرماتے ہیں لیس منا وہ ہمارا نہیں ۔ اگرچہ نمازی ہو روزے دار ہو، حاجی ہو، جو کچھ بھی کررہا ہو فرمایا ادھر مسلم أمه پرقیامت گزر جائے اور اس کو کبھی ایسا کردار ادا کرنے کیلئے تڑپ ہی پیدا نہ ہوئی ہو ۔ فرمایا  میری امت کا فرد وہ ہے جو اپنے بھائی کے درد میں تڑپتا ہے۔ 

آج کے جوخطرات ہیں اگر گننے بیٹھیں تو اس  میں گھنٹوں گزر جائیں ۔ صرف ایک دو باتیں جو بڑی ہی اہم ہیں ان کو پیش کرتے ہوئے اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ایک ہے خطرہ امت مسلمہ کے بدن اور وجود کو، اور ایک ہے خطرہ امت مسلمہ کی سوچ کو اور نظر وفکر کو، کچھ حملے وہ ہیں جو امت مسلمہ کے وجود پر ہیں اور کچھ حملے وہ ہیں جو مسلم امہ کی سوچ پر ہیں ۔ جو مسلمانوں کی فکر پر ہیں ۔ جو مسلمانوں کے دماغ پر ہیں ۔ آج صورتحال بہت بدتر اور ابتر ہوتی جارہی ہے ۔ جوحملہ مسلم امہ کے بدن پر ہے ۔ اگر چہ وہ بھی ایک گھاؤنی سازش ہے ۔ جو کعبتہ اللہ سے خون مقدس ہو، اس خون کو گلیوں میں بہا دیا جائے۔ لیکن اس سے بڑا حملہ اور اس سے بڑا جرم ان لوگوں کا ہے جو مسلم امہ کی سوچ پرحملہ کر رہے ہیں، مسلم امہ کے دماغ کو معطل کر رہے ہیں ۔ مسلم امہ کے دماغ کو بدل رہے ہیں ۔ مسلم امہ کے دماغ کو تبدیل کررہے ہیں ۔ یہ بڑاحملہ اس واسطے ہے کہ جس کے بدن پر حملہ ہورہا ہے وہ جیت کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ وہ دفاع کر رہے ہیں روزانه شہادتوں کا جام نوش کر کے کافروں کو واصل جہنم کر رہے ہیں ۔ اور وہ اپنے ایمان کے زور پر ٹیکنالوی کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں ۔ لیکن جو حملہ سوچ و فکر پر ہوتا ہے ۔ اس میں قباحت اور بربادی یہ ہے کہ حملہ ہورہا ہے اس بیچارے کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ چپ کر کے سہتا ہے ۔ اور بدلتے بدلتے بدل جاتا ہے ۔ جس زخم پر اسے درد ہوتا تھا ۔ اس زخم کا درد اسے محسوس ہی نہیں ہوتا ۔ جو بیماری تھی اس کو وہ شفا سمجھتا ہے ۔ اور جو زہر تھا اس کو وہ تریاق سمجھتا ہے اور نتیجہ بڑی ہلاکت کا ہوجاتا ہے ۔ 

وہ پہلا حملہ چونکہ اسکی مزاحمت کا ایک جذبہ اور شوق ہوتا ہے ۔ اس کو روکنے کی تدابیر بھی ہوتی ہیں ۔ اور کامیابیاں بھی ہوتی ہیں ۔ یہ دوسرا حملہ ایسا ہے کہ بیٹھا بیٹھا مسلمان اس کا دماغ یہودی بنتا ہے ۔ اس کا دماغ عیسائی بن جاتا ہے ۔ اس کا دماغ ہندو کا دماغ بن جاتا ہے ۔ وہ بیٹا مسلمان کا تھا ۔ با یہودیوں والی کرتا ہے ۔ وہ فرزند تو اسلام کا تھا مگر وہ باتیں عیسائیوں والی کرتا ہے ۔ اس نے آنکھ تو ایک اسلامی خاتون کی گود میں کھولی تھی ۔ لیکن جب بولتا ہے تو جہنمیوں والی باتیں کرتا ہے ۔ کیوں ! اس کی سوچ کو معاشرے نے بدل دیا ۔ اس کی سوچ کو اغیار نے بدل دیا اس کی سوچ کو یہور ونصاری کے پراپیگنڈہ نے بدل دیا ۔

 یہ سلسلہ اس وقت سب سے خطرناک ہے اور یہ چیلنج اسلام کے لیے سب سے خطرناک ہے ۔ دوسری جگہ حملے ہورہے ہیں ان کا ظلم اور قباحتیں اپنی جگہ لیکن وہاں بھی ایک تحریک ہے اور دفاع کیا جارہا ہے اور جواب دیا جا رہا ہے، لیکن اس شعبہ میں خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ہم نے اس کا بھی کوئی حل نکالنا ہے کہ ہم کس طرح اپنا دفاع کر سکتے ہیں، خود کو اور اپنی سوچ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟

ہر چیز مسلم امہ کی لٹتی جارہی ہے ۔ اس کے نظریات وافکار کو ذہن سے نکال کر نئے فیڈ کیے جارہے ہیں ۔ اس سلسلے میں آواز اٹھائی ہی نہیں جا رہی اور احساس بی پیدا نہیں ہورہا ۔ میرے بھائیو ! دیکھو تو رسول اکرم نے کس قدر متوجہ کیا تھا ۔ الله تعالی کے قرآن کی آیات نے ہمیں کس قدر سمجھایا تھا ۔ اور کسی قدر اس سلسلے کے اندر محتاط کردیا تھا ۔ جب سورة الانعام کی آیت نمبر 168 اتر رہی تھی تو کیا مفہوم تھا ۔ اس کا مطلب کیا تھا ۔ 

"یا دآجانے کے بعد ظالموں کے پاس بالکل نہ بیٹھو، ظالموں کے پاس بیٹھنا حرام کیا ۔ جیسے شراب نوشی کو حرام کیا ۔ ایسےہی یہودی ، عیسائی اور ہندوؤں کے پاس بیٹھنے کو حرام کیا بالخصوص جس وقت وہ اسلام پر تنقید کرتا ہو۔ آیات کا مذاق اڑاتا ہو ۔ اسلام پر ہر وقت حملے کرتا ہو تو اللہ نے حرام کر دیا ۔ فرمایا ہر جگہ بیٹھ سکتے ہو ۔ ایسے منحوس لوگوں کے پاس نہیں بیٹھ سکتے ۔"

 اس واسطے اگر بیٹھو گے تو تمھارے دماغ کا کیسٹ بدل جائے گا ۔ نتیجہ بڑا خطرناک نکلے گا ۔ آج کیا ہورہا ہے کچھ لوگ تو ویسے زیردام چلے گئے اور یقیناً کسب حلال کے لیے کہیں جانا بھی جائز ہے ۔ لیکن جو اپنے رزق کی خاطر ان ممالک میں گئے اور وہاں جا کر اپنا تحفظ کر سکے ۔ انھوں نے جرم کا ارتکاب کیا اور اگر کوئی وہاں جا کے محفوظ رہتا ہے تو یقینا اس کے لیے گنجائش بھی موجود ہے ۔ ان آیات کو بہر حال اسے سامنے رکھنا ہوگا ۔ میرے اللہ نے جب حرام کہا تھا تو یہ کیسے وہاں پر بیٹھتا ہے ۔ سور اور خنزیر کی حلت کی دلیلیں ان سے سیکھتا ہے اور پھر اس میں متذبذب ہو جاتا ہے ۔ شراب کی حرمت کے بارے میں شک میں اتر آتا ہے ۔ آج ہمارے دین کیسے بدل رہے ہیں ۔ مسلم امہ کے لیے ضروری تھا کہ یہ غیر کی بات ہی نہ سنتے، ان کی بات سننے سے اسلام نے پابندی لگائی تھی ۔

الیکٹرانک میڈیا پر ایک بہت بڑی پلاننگ چل رہی ہے پوری قوم کا ذہن اچک لینے کی اور اس کے دماغ کو بالکل معطل کردینے کی، جتنے بھی چینل ہیں یہودیوں، عیسائیوں، مرزائیوں اور ہندوؤں کے چل رہے ہیں ۔ اس پاکستان کی سرزمین پر حرام تھا کہ ان میں سے ایک کی آواز بھی یہاں پر سنائی دیتی ۔ اس ملک کی حکومت کا سب سے پہلا منصب یہ ہے کہ وہ اپنے مواصلاتی نظام کو اتنا مستحکم بنادے کہ کوئی باہر سے بیٹھ کر ان کو کچھ سنانا چاہے تو یہ اس کو روکیں ۔ جو اسلام کو پسند ہو وہ تو قوم تک آنے دیں ۔ اور جو اسلام کو ناپسند ہو وہ بات ہرگز اس دائرے کے اندر داخل نہ ہونے دیں ۔ 

تمام تر مسلم امہ کے قبضے میں جتنے بھی ممالک سب سے بڑا پہرہ مواصلات اور ذرائع ابلاغ کے لحاظ سے ہونا چاہئے۔ وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹنگ میڈیا ہوسب سے پہلا فرض حکمرانوں کا یہ  ہے کہ وہ امت کو ان حملوں سے بچائے ۔ اسلام نے ذرائع ابلاغ کے بارے میں باقاعده درس دیا ھے۔

No comments:

Post a Comment