Islamic Education

Saturday, March 6, 2021

Dangerous virus than corona

 کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وائرس کا خدشہ

 عالمی ادارۂ صحت نے ایبولا وائرس کے پھیلنے کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس افریقی ملک گیانا سے پڑوسی ممالک میں پھیل سکتا ہے۔


ایبولا ایک ایسا خطرناک وائرس ہے، جس میں مبتلا ستر فیصد مریضوں کی موت ہوجاتی ہیں، ایبولاوائرس کی ابتدائی علامات میں بخار ، گلے اور سر میں درد سرفہرست ہے، مریض متلی کے ساتھ ہاضمے کی خرابی میں مبتلا ہوجاتا ہے،جس کے بعد جوڑوں اور پٹھوں میں درد، خارش، اور بھوک میں کمی کے علاوہ جگر اور گردوں کی کارکردگی متاثرہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر جین جیکس نے سنہ 1976 میں ایک پراسرار قسم کی بیماری کا شکار ہوجانے والے اولین افراد کے خون کے نمونے لیے تھے، اس بیماری کو بعد ازاں ایبولا وائرس کا نام دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ ایسے لاتعداد وائرسز ہوسکتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ان کی ہولناکی کرونا وائرس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

عالمی ادارۂ صحت گیانا کے افسر جیورجس کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند روز میں ایبیولا کے 18 کیسز سامنے آئے جن میں سے چار مریضوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اب تک گیانا میں 1 ہزار 600 کے قریب لوگوں کو ایبولا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جاچکی ہے۔

 افریقا کے مغربی ممالک میں 2013 سے 2016 کے درمیان ایبولا وائرس پھیلا تھا جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی اموات ہوئیں تھیں.

ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں بیماریاں منتقل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا اور ان کی تجارت ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ایبولا سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہاتھ صابن سے دھوکر صاف ستھرے کپڑے سے خشک کرنا چاہئیں، بازار کے بنے مرغوب کھانے کھانے سے اجتناب کریں، گھر کے کونے صوفہ اور ببڈ کے نیچے وقفے وقفے سے جراثیم کُش ادویات کا اسپرے کریں، کمروں کی کھڑکیاں دروازے کھول کر سورج کی روشنی کا مناسب بندوبست کریں کیونکہ ایبولا کا جرثومہ جراثیم کش ادویات، گرمی، سورج کی براہ راست روشنی، صابن اور ڈٹرجنٹس کی موجودگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر گھر میں کوئی جانور مر گیا ہے تواس کو فوراً گھر سے باہر منتقل کردیں کیوں کہ مردہ جانوروں کی لاشوں سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے، پالتو جانوروں کی صحت کا خیال رکھیں اور گھر سے چوہوں کا خاتمہ ممکن بنائیں

No comments:

Post a Comment