حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے مقام اور مرتبے سے کون سا مسلمان ہے جو ناواقف ہوگا۔ وہ صحابیت کے شرف کے حامل تھے‘ وہ نواسہ رسول ﷺ تھے‘ وہ ابن بتول رضی اللہ عنہا تھے‘ وہ حیدر کرار رضی اللہ عنہٗ کے فرزند تھے‘ ان کا زہد و تقویٰ مثالی تھا‘ وہ صورت و سیرت میں اپنے نانا سے بڑی مشابہت رکھتے تھے مگر ظالموں کو نہ جانے کیا ہوگیا.
اسلامی تاریخ میں واقعۂ کربلا کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں جبکہ 9 اور 10 محرم کو شہدائے کربلا پر ظلم وستم کے جو پہاڑ توڑے گئے وہ عالمِ انسانیت کیلئے آج بھی ایک سوالیہ نشان ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنگ کی ایک سمت تو حضرت امام حسین علیہ السلام کا قافلہ تھا جس نے بہادری، جرات و شجاعت اور صبر و استقلال کی وہ مثالیں قائم کیں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا جبکہ ان کے مقابلے پر موجود افراد نے بھی خود کو مسلمان ہی کہا۔ لیکن انہوں نے سب کچھ فراموش کردیا‘ خونی اور مذہبی رشتوں کا بھی پاس نہ رکھا اور خاندان نبوت کے گل و لالہ کو ظلم کی چکی میں پیس کر رکھ دیا
ایسے مسلمان جو اسلام کے ساتھ ساتھ انسانیت کے نام پر بھی دھبہ تھے، انہوں نے قرآن و سنت کی ہدایات کی سنگین خلاف ورزیاں کرتے ہوئے نبئ آخر الزمان و خاتم النبیین ﷺکے نواسے اور آپ علیہ السلام کے اہلِ بیت کو نہ صرف قتل کیا بلکہ ان کی بے حرمتی بھی کی۔ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر اتنا ظلم و ستم کیوں ہوا جس پر عالمِ انسانیت آج بھی ماتم کناں ہے۔
سیاست اور اقتدار کی بجائے اسلامسب سے پہلے یہ حقیقت سمجھنا ضروری ہے کہ واقعۂ کربلا کسی سیاست اور اقتدار کی جنگ کی بجائے صرف اور صرف بقائے اسلام کی جنگ تھی۔ یزید حضرت امام حسین علیہ السلام سے بیعت چاہتا تھا جبکہ امام حسین علیہ السلام نے یہ بیعت اِس لیے نہ کی کیونکہ آپ شریعتِ اسلامی کا نفاذ چاہتے تھے۔یزید نے امیر المومنین کا منصب حاصل کرنے کے بعد شریعتِ مطہرہ کی وہ خلاف ورزیاں کیں کہ انسانیت بھی اس پر شرمسار ہوئی جس سے بیعت کا مطلب صرف یہ لیا جاتا کہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر طاقتور جو چاہے کرسکتا ہے، اسلامی شریعت میں اپنی مرضی کے اصولوں کے سوا سب کچھ چھوڑا جاسکتا ہے۔
حضرت امام حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقاء تھے جنہیں شہید کیا گیا، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کو قیدی بنایا گیا، 72 ساتھی، کچھ غلام اور 22 اہلِ بیت کے جوان اور نبی اکرم ﷺ کے خانوادے کی کچھ خواتین اور بچے جنگ کی ایک سمت موجود تھے۔ایک طرف تو یزید کی طرف سے جنگ کیلئے ماہر سپاہی اور سپہ سالار کی خدمات حاصل کی گئیں جبکہ دوسری جانب کوئی فوج نہیں بلکہ ایک ایسا خاندان تھا جس نے اسلام کیلئے جان دینے کا عزم رکھتے ہوئے ہی بیعت سے انکار کیا تھا۔بیعت نہ کرنے کی وجوہات ۔ یزید کا کرداربنیادی طور پر اسلام میں امیر المومنین کے منصب پر اس شخص کو فائز کیا جاتا تھا جس کا اعلیٰ کردار مکمل طور پر بے داغ ہو تاہم یزید کے کردار میں کچھ ایسی برائیاں تھیں جن کے تحت تمام علمائے اِسلام اِس بات پر متفق ہیں کہ یزید خلافت کا کسی لحاظ سے اہل نہیں تھا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یزید کے خلاف تھے۔
یہ شخص مسلمان نہیں تھا کیونکہ وہ خدا کی قائم کردہ حدودوقیود، حلال و حرام اور شریعتِ اسلام کو نہیں مانتا تھا۔ وہ بیت اللہ کا احترام نہیں کرتا تھا، نہ ہی مسجدِ نبوی ﷺ کو اہم سمجھتا تھا۔ وحی کا انکار، فرشتوں کی تکذیب اور قریش و بنو ہاشم کو ڈھونگی قرار دینا اس کی خصلت تھی۔خاندانِ رسول کو ظالمانہ اور وحشیانہ انداز میں قتل کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید کے ذہن میں رسول اکرم ﷺ یا آپ ﷺ کے خاندان کا کوئی احترام یا لحاظ نہیں تھا۔ کربلا میں رفقائے حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد یزید نے بدر میں مارے گئے کفار کو باپ دادا قرار دیا۔
کوفہ میں موجود مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ یزید کا قلع قمع کیاجاسکے، تاہم جنگِ کربلا میں اہلِ کوفہ کے کردار پر صرف ایک ہی مثال صادق آتی ہے۔عربی میں کہا جاتا ہے کوفی لا یوفی۔ یعنی اہلِ کوفہ وفا نہیں کرتے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کو کوفہ بلا کر اور ظلم کے خلاف کمربستہ ہونے کی دعوت دینے کے بعد کوفی تو پیچھے ہٹ گئے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام نے یہ جنگ آخری دم تک لڑی۔
واقعۂ کربلا کی تفصیلات .کوفیوں کے خطوط پر ردِ عمل دیتے ہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو عراق بھیج دیا تاکہ درست صورتحال معلوم کی جاسکے۔ کوفہ پہنچنے کے بعد 18 ہزار کوفیوں نے چند ہی دنوں میں مسلم بن عقیل کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا خط ملنےکے بعد حضرت امام حسین بھی کوفہ پہنچنے کیلئے تیار ہو گئے۔ حضرت ابن عباس اور ابنِ زبیر نے آپ کو روکا اور کہا کہ کوفی غدار اور بے وفا ہیں جنہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ پہلے ہی بے وفائی کی ہے۔ ہمیں آپ کی جان کا خطرہ ہے۔عراق میں حالات اچانک پلٹ گئے۔ مسلم بن عقیل کی کسی نے مخبری کردی۔ مسلم بن عقیل اور ابنِ زیاد (حاکمِ کوفہ) کے ٹکراؤ کے بعد خطرہ بھانپتے ہی سارے کوفی منظر سے غائب ہو گئے۔ مسلم بن عقیل کو شہید کر دیا گیا۔سیدنا امام حسین عراق کیلئے روانہ ہوچکے تھے، مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا مگر مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ بھائی کے خون کا بدلہ ضرور لیں گے۔ آپ نے ارادہ پھر تبدیل کیا اور آگے روانہ ہوئے۔
یہاں ابنِ زیاد نے لشکر بھیج دیا جس کی ذمہ داری امام حسین سے بیعت لینا تھی۔ کچھ دنوں بعد 4 ہزار سپاہیوں کا لشکر بھی روانہ کیا گیا جس کی سربراہی عمر بن سعد نے کی۔ محرم کے دوران کربلا میں حضرت امام حسین کے قافلے پر پانی بند کردیا گیا۔سن 61 ہجری میں 9 محرم تک یزید کی بیعت کیلئے زبردست دباؤ ڈالا گیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بیعت نہیں کرسکتا۔ مکہ واپس جاناچاہتا ہوں، میرا راستہ چھوڑ دیا جائے لیکن یزید کے لشکر نے انکار کردیا۔کہا گیا کہ آپ یا تو یزید کی بیعت کر لیں یا ابنِ زیاد کے پاس ہمارے ساتھ چلیں تاہم آپ نے سختی سے انکار فرمایا۔ بعد ااں شمر ذی الجوشن نامی لعین شخص ایک نیا دستہ لے کر آگیا جس کے بعد جنگ لازمی ہو گئی اور مصالحت کے امکانات ختم ہو گئے۔صرف 72 ساتھیوں کے ہمراہ ہزاروں کی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے حضرت امام حسین میدانِ کربلا میں نکلے۔ 10 محرم کے روز جنگ میں ایک ایک کرکے تمام رفقاء نے جامِ شہادت نوش کیا۔ سنان بن انس نامی شخص نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا۔
اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضرت محمدﷺ کو وحی فرمائی کہ میں نے یحی بن زکریا علیہ السلام کی شہادت کے بدلے ستر ہزار افراد مارے تھے اور آپ کے نواسے کے عوض ان سے دگنے یعنی ڈبل ماروں گا۔اور بے شک اللہ تعالی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔
امام حسین کی شہادت میں شامل ہر شخص بہت ہی بری موت مراکوئی اندھا ہوگیا تو کسی کامنہ کالا ہوگیا ان تمام بدبختوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں سب سے نمایاں کردارمختار ثقفی کا رہا
مختار بن عبیدہ ثقفی نے خون حسین علیہ السلام کابدلہ لینے کے لیے اعلان عام کیا کہ مجھے ہر اس شخص کی خبر دی جائے جو ابن سعد کے لشکر میں تھا اور امام عالی مقام علیہ السلام کے مقابلے میں آیا اور وہ بھی جو ان کے قتل سے خوش ہو ا تھا لوگوں کی طر ف سے خبریں آنا شروع ہو ئیں تو قاتلین امام حسین علیہ السلام اپنے انجام کو پہنچنا شر و ع ہو گئے ۔ خو لی کی گر فتاری کے لیے مختار نے معا ذ بن ہانی اور اپنے محافظ خاص ابو عمر و کو چند سپا ہیوں کے ساتھ بھیجا ۔
خولی وہی بد بخت انسان تھا جس نے سیدنا امام عالی مقام علیہ السلام کو قتل کیا اور آپ کے سر انور کو جسم سے جدا کیا تھا ۔ خولی کے مکان کا محاصر ہ کیا گیا جب اسے معلوم ہوا تو اپنے مکان میں چھپ کر بیٹھ گیا اور بیوی سے کہا تم لا علمی ظاہر کر دینا معاذ نے ابو عمر سے کہا تم آوا ز دو ۔ آواز سن کر خولی کی بیوی باہر نکلی انہوں نے کہا تمہارا شوہر کہا ں ہے ؟ اس نے زبان سے کہا مجھے پتہ نہیں لیکن ہا تھ کے اشا رے سے بتا یا کہ وہ اند ر ہی ہے ۔ چنا نچہ خولی کو گر فتار کر کے مختار کے سامنے پیش کیا گیا اور اس کے حکم پرخولی کو پہلے قتل کیا گیااور پھر جلا دیا گیاحضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنۂ کے قاتلوں کاانجام بڑا عبرتناک ہوا۔
تھا کہ لیکن ان میں سے کوئی بھی ظلم کے انجام بد سے نہ بچ سکا۔ امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے قاتلوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ بچا جو کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ بعض اندھے ہوگئے‘ بعض خوفناک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے‘ بعض پاگل اور دیوانے ہوگئے‘ بعض کو اذیتیں دے کر قتل کردیا گیا۔ جب عبدالمالک بن مروان کے زمانے میں مختار بن ابی عبید ثقفی نے کوفہ پر قبضہ کرلیا تو اس نے اپنا مشن ہی یہ بنالیا تھا کہ وہ کربلا میں ستم ڈھانے والوں کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا اور انہیں چن چن کر اپنی خونی تلوار کا نشانہ بناتا تھا، اس کے سامنے جب ایسے لوگوں کو لایا جاتا تو وہ ان میں سے کسی کے ہاتھ کٹوا دیتا، کسی کو تیروں سے مروا دیتا اور کسی زندہ جلا دیتا۔انہوں نے بنو امیہ کے خلاف تلواراٹھائی اور چن چن کر امام حسین کے ہزاروں قاتلوں کو واصل جہنم کیا حضرت امام حسین کی شہادت کے و وقت مختار ثقفی عبیدا للہ ابن زیاد کی قید میں تھے جی ہاں وہی ابن زیادہ جو شہادت حسین کے وقت کوفہ کا گورنرتھا یہی شخص اس سانحے کا دوسرا بڑا مجرم تھا کہ جس کے حکم پر کربلا میں اہل بیت پر ظلم وستم کی انتہا ہوئی اور یہی وہ بدبخت تھا جس نے حضرت امام حسین کے سر مبارک کے ساتھ بے ادبی کی تھی مختار سقفی نے ابن زیاد سے رہائی کے بعد اپنی قوتوں کو بحال کرکے ایک لشکر اس سے مقابلے کے لیے روانہ کیا.
جس کے سپہ سالار ابراہیم بن اشتر تھے ابراہیم بن اشتر جو کہ ایک ماہر ترین جنگجو تھے انہوں نے ابن زیاد کو بد ترین شکست دی اور سانحہ کربلا کے ٹھیک چھ سال بعد یعنی دس محرم ہی کے دن یہ بدترین انسان ابن زیاد قتل کر دیا گیا ابن اشتر نے اس کا سر کاٹ کر کوفہ میں مختار سقفی کے پاس بھجوا دیا سنن ترمذی کے مطابق جب ابن زیاد کا یہ ناپاک سر زمین پر اس کے ساتھیوں کے سر وں کے ساتھ پڑا ہوا تھا کہ شور مچ گیا کہ وہ آگیا وہ آگیا اتنے میں ایک سانپ نمودارہوا جوکہ سب کٹے ہوئے سروں کے درمیان سے ہوتا ہوا ابن زیاد کے سر کے پاس آیا اور اس کے نتھنوں سے ہوتا ہوا اندر گھس گیا پھر منہ سے باہر نکلا اس کے بعد اس سانپ نے تین مرتبہ یہ عمل دوہرایا تو دوستو یہ اس غلیظ شخص کا انجام تھا کہ جس نے حضرت امام حسین کے سرمبارک کی بے ادبی کی تھی اس کے بعد شمر زر جوشن کی بات کرتے ہیں یہ وہ ناپاک وجود تھا کہ جس نے حضرت امام حسین کو شہید کرنے جیسا گناہ سرانجام دیا یہی نہیں بلکہ اس بدبخت نے آپکے جسد مبارک کی توہین کی اور امام زین العابدین جو کہ بیماری کے سبب بستر پر لیٹے ہوئے تھے انہیں بھی قتل کرنے کاارادہ کیا لیکن لوگوں نے اسے روک دیا شمر نے بھی مختار سقفی کے خلاف ہونے والی ایک جنگ میں شرکت کی جس میں اسے شکست کاسامنا ہوا اس کے بعد شمر کوفہ سے فرار ہوگیا راستے میں مختار سقفی کے کچھ ساتھیوں نے اسے روک لیا اس کے ساتھی بھاگ گئے.
لیکن شمر گرفتار کر لیا گیا مختارسقفی نے اس کے قتل کا حکم دے دیا مگراس کے ایک ساتھی نے زیتون سے بھری ہوئی ایک دیگ آگ پر رکھوائی جب تیل کھولنے لگا تواس میں اس ملعون کو ڈال دیا گیا جب وہ نیم مردہ ہوگیا تواس کو نکال کر زبردستی تارکول یعنی کتران پلایا گیا پھر اس کی لاش کو آگ لگا دی گئی کچھ روایات کے مطابق اس کا جسم کتوں کے آگے ڈال دیا گیا اگلا ناپاک کردارحرملا کا ہے یہ یزید کے لشکر کے تیراندازوں میں سے تھا یہ ذلیل انسان وہی حرملا ہے کہ جس نے امام حسین کی گود میں آپ کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو نشانہ بنایا تھا مختار سقفی کو اس کی بہت تلاش تھی ایک دن آپ کہیں جارہے تھے کہ اطلاع ملی کہ حرملا گرفتار ہوگیا ہے مختارسقفی یہ سن کر بہت خوش ہوئے جب حرملا سامنے آیا تو آپ نے جلادوں کوحکم دیا کہ پہلے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں پھر اس پر تیر برسائے جائیں اس کے بعد اسے آگ میں جلادیا جائے چنانچہ مختارسقفی کے حکم کی تعمیل کی گئی اور اس طرح وہ ملعون واصل جہنم ہوا۔اب اس سانحے کے سب سے ملعون کردار یزید کی بات کرتے ہیں یزید جس نے اقتدار کی خاطر کربلا میں ظلم وستم کی آندھیاں چلائیں.
مسجد نبوی میں قتل عام کیا اور خانہ کعبہ پر سنگ باری جیسے گناہ کا مرتکب ہوا وہ اقتدار اس کے لیے کچھ زیادہ ہی ناپائیدار ثابت ہوا بد نصیب یزید صرف تین برس چھ ماہ حکومت کرکے شام کے شہر حمص میں انتالیس سال کی عمر میں مرگیا یزید کی موت کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتاہے کہ وہ ایک یورپی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوگیا تھا وہ لڑکی اندرونی طور پر اس سے نفرت کرتی تھی مگراس کے دنیاوی رتبے اور جاہ وجلال کے سبب اسے انکار نہ کرسکتی تھی ایک دن رنگ رلیاں منانے کے بہانے اس نے یزید کو دور ویرانے میں تنہا بلایا جب یزید اس لڑکی کی محبت میں پوری طرح مدہوش ہوچکا تواس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت اپنے نبی کے نواسے کا غدار ہو وہ میرا وفادار کب ہوسکتا ہے اس نے خنجر کے پے درپے وارکرکے چیر پھاڑ کر اس کو وہیں پھینک دیا چند روز تک اس کی لاش چیل کووں کی دعوت میں رہی بالآخر اسے ڈھونڈتے ہوئے
اس کے چیلے وہاں پہنچے اور گڑھا کھود کراس کی لاش کو وہیں دفنا آئے اس کی موت سے متعلق ایک اور روایت مشہور ہے کہ یزید پیٹ کی ایک مہلک ترین بیماری میں مبتلا ہو کر نہایت ہی اذیت ناک موت مرا تو دوستو یہ ہے دنیا کی حقیقت کہ جس کے تخت و تاج کے لیے اپنا ایمان اورآخرت داؤ پر لگادی گئی وہ کتنے دن کا مہمان تھا یہ دنیاوی فوج، دولت اور طاقت کسی کام نہ آئے امام حسین کے قاتلوں کی زندگی بھی مختار سقفی سے چھپتے چھپاتے ہی گزری اورآخرت میں بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے ۔۔۔امام جلا ل الد ین سیوطی رحمہ اﷲ فر ما تے ہیں ۔ کو فہ میں ایک سال چیچک ہوئی اس میں ڈیڑھ ہزا ر اولا داُن لو گو ں کی اند ھی ہوئی جو سیدناامام حسین علیہ السلام کے قتل کے لئے گئے تھے ۔ وہ لو گ جو امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک تھے وہ تو عبر ت کا نشان بنے اور دنیا میں ہی عذاب میں مبتلا ہوئے مگر وہ لو گ جو اس سانحہ پر خوش اور راضی تھے ان کا حال یہ ہوا کہ کسی کا چہر ہ سیا ہ ہو گیا بعض کوڑھ اور بر ص کے مر ض میں مبتلا ہوگئے بعض ایسی دائمی بیماری میں مبتلا ہوگئے کہ زند گی ان کے لے عذاب بن گئی
شہادتِ حسین کا مقصد ماتم کرنا بھی نہیں۔ "ماتم" عربی زبان کا لفظ ہے، دراصل کسی غم یا خوشی میں مردوں اور عورتوں یا صرف عورتو ں کے اجتماع کو "ماتم" کہا جاتا ہے، پھر کسی کی موت پر عورتوں کے اجتماع کو "ماتم" کہاجانے لگا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :ترجمہ : جو شخص منھ پر طمانچے مارے، گریبان چاک کرے اور زمانۂ جاہلیت کی طرح چیخ وپکار کرے وہ ہمارے دین پر نہیں ہے۔
ماتم کرنے والے اس آیتِ مبارکہ کا حوالہ دیتے ہیں
((لا یحبّ اللہ الجھر بالسّوء من القول الاّ من ظلم ...))[1]
ترجمہ: اللہ مظلوم کے علاوہ کسی کی طرف سے بھی علی الاعلان برا کہنے کو پسند نہیں کرتا ...۔
اس آیت مجیدہ سے یہ پتہ چلتاہے کہ مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم پر علی الاعلان تنقید بھی کرسکتا ہے اور اسکے خلا ف احتجاج بھی ۔اور اسی احتجاج کا ایک مصداق ماتم امام حسین علیہ السّلام ہے جس میں عاشقان رسول گرامی اسلام ۖ اپنے نبیۖ کے نواسے پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف احتجاج اور ظالم یزیدیوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تا کہ یوں روز قیامت اپنے نبیۖ کی شفاعت حاصل کرسکیں۔اس لئے کہ ماتم اور عزاداری در حقیقت محمد وآل محمد علیہم السلام سے اظہار محبّت کا مصداق ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت کچھ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا ھے۔ کیا اس پر بھی کبھی ہم نے غور کیا ھے۔
شہادت کا مقصد غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے شریعت کے خلاف کسی حکمران کی غلامی قبول کرنے پر موت کو ترجیح دی جس سے اسلام کی حقانیت واضح ہو گئی۔ خدا کی قائم کردہ حدودوقیود، حلال و حرام اور شریعتِ اسلام کو ماننا تھا۔ قرآنِ کریم میں موجود احکام و ہدایات اور احادیث مبارکہ پر عمل پیرا ہونا. بیت اللہ کا احترام اور مسجدِ نبوی ﷺ کو اہم سمجھنا تھا۔ وحی کو سچ ماننا، یہاں اگر یہ واقعہ روک دیا جاتا ، حضرت امام حسین بیعت کر لیتے تو رفقائے کربلا کی جانیں تو بچ جاتیں لیکن شاید آج اسلام کو اتنا اہم مذہب نہ سمجھا جاتا جتنا کہ یہ آج ہے.
ایک یاد دہانی ہے ہر ذی روح کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو کہ ہر دور میں سوچ دو ہی قسم کی ہو سکتی ہیں ؛ یا حسینی یا یزیدی۔ ہر زمانے میں حق کی لڑائی لڑنی ہوگی، سچ کی قیمت خون سے ادا کرنی ہوگی، سوچیے گا ضرور ! کیا ہم مقصدِ شہادتِ حسینؓ پر پورا اترتے ہیں ؟
No comments:
Post a Comment