Islamic Education

Wednesday, August 11, 2021

وزیراعظم کے نام اہم پیغام

وزیراعظم کے نام ایک اہم پیغام

 حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے جب پاکپتن میں ڈیرہ لگایا۔ آپ کے مریدین اور ماننے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اور دور دراز کے علاقوں میں دینِ اسلام کا پیغام پہنچ رہا تھا۔ شہر کے مولانا جو بہت بڑے عالمِ دین تھے کو جب خبر پہنچی کہ ایک درویش نے شہر کے باہر ڈیرہ لگایا ھے اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کے ہاتھ سے مسلمان ہو رہے ہیں۔ اس مولانا نے آپ سے ملنے کا ارادہ کیا، کہ دیکھتے ہیں ایک ملنگ کیا دین سکھاے گا۔

اس نے چار پانچ بندوں کو ساتھ لیا اور بابا فرید کے آستانے پر آ پہنچا۔ بابا جی نے اسے آتے دیکھا تو آٹھ کر اس کے استقبال کے لئے آگے تشریف لے گئے اور بڑی عاجزی اور محبت سے ملے، اور اسے اپنی جگہ پر بٹھایا۔ مریدین اور عقیدت مندوں کا جوش اور جذبہ دیکھ کر مولوی صاحب کے دل میں حسد و کینہ نے سر اٹھایا۔ مولوی صاحب نے گستاخانہ انداز میں بابا فرید سے کہا کہ مجھے دین اسلام کے بنیادی رکن تو بتاؤ ذرا، کتنے ہیں؟

بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے فرمایا کہ، چھ رکن ہیں۔ 

مولانا نے استغفار پڑھتے ہوئے سوال کیا کہ ذرا بتاؤ کہ وہ چھ رکن کون سے ہیں؟

بابا فرید نے فرمایا کہ، کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور روٹی۔

مولانا نے دوبارہ استغفار پڑھا اور بولے کہ اسلام کے رکن کا پتہ نہیں، اور چلے لوگوں کو اسلام سکھانے۔

دو چار سال بعد مولانا حج کو چلے گئے اور سات سال مکہ معظمہ رھے اور سات حج کیے۔  سات سال بعد واپس آنے کی تیاری کی تو راستے میں سمندری طوفان نے آن گھیرا، جہاز ڈوب گیا اور ساتھ سارے مسافر بھی اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔ مولانا صاحب تیرتے ڈوبتے کنارے جا لگے۔ جب پانی سے باہر نکلے تو چاروں طرف نظر دوڑائی، ہر طرف پانی ہی پانی اور خود کو ایک جزیرے پر کھڑا پایا۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کی، پھر تھک ہار کر ایک جھاڑی کے ساتھ بیٹھ گئے۔ کافی دیر گزر گئی لیکن کوئی جہاز یا کشتی آتی جاتی دیکھائی نہ دی اور نہ ہی کوئی انسان دیکھائی دیا۔ مولانا صاحب کو بھوک لگ رہی تھی، لیکن کھانے پینے کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا بھوک بڑھتی چلی گئی، حتی کہ مولانا صاحب بھوک کے مارے بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش آئی تو سورج سر پر تھا یعنی مولانا صاحب رات بھر بےہوش رھے۔ بھوک کی وجہ سے کمزوری اور حالت غیر ہو چکی تھی دوبارہ پھر شام ہونے کو آئی پھر رات ھو گئی۔ کمزوری اتنی زیادہ ھو گئی کہ مولانا صاحب نماز بھی ادا نہ کر سکے۔ دھوپ کی تپش کی وجہ سے آنکھ کھلی تو دن ھو چکا تھا اور سورج سر پر تھا۔ اچانک مولانا صاحب کے کان میں آواز پڑی کہ، روٹی لے لو روٹی۔

مولانا صاحب نے اس آواز کی جانب دوڑ لگا دی۔ جب پاس پہنچے تو دیکھا کہ ایک نوجوان سر پر ٹوکری اٹھاے آواز لگاتا چلا جا رہا ہے" روٹی لے لو روٹی"

مولانا صاحب نے بمشکل اسے بتایا کہ میں بھوکا ہوں مجھے روٹی چاھیے، نوجوان نے کہا کہ میں تو روٹی بیچتا ہوں لیکن أپ کے پاس پیسہ نہیں ھے۔ مولانا نے اس کی کافی منت سماجت کی، لیکن لا حاصل۔ مولانا صاحب نے اسے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں سات حج کر کے آ رہا ہوں، عالم دین ہوں اور پاکپتن ( اجودھن) کی جامعہ مسجد کا امام بھی ہوں۔ اس نوجوان نے کہا کہ مولانا! روٹی کے بدلے آپ وہ سات حج مجھے دے دیں۔ مولانا نے روٹی کے بدلے یہ سودا کر لیا، اور وہ نوجوان مولوی صاحب کو روٹی کھلا کر چلا گیا۔ 

دوسرے دن پھر وہ نوجوان روٹی لے کر آیا اور تمام عمر کی نمازوں کے بدلے روٹی دے گیا۔ تیسرے دن تمام عمر کے روزوں کے بدلے سودا طے پایا۔ چوتھے دن جب اس نوجوان نے آواز لگائی تو مولانا نے روٹی طلب کی۔ اس نوجوان نے انکار کر دیا کہ آپ اپنے حج اور تمام عمر کی نمازیں اور روزے پہلے ہی دے چکے ہیں۔ اب آپ کے پاس دینے کے لئے کچھ نہی۔ مولوی صاحب کی منت سماجت کے بعد وہ نوجوان اس شرط پر مان گیا کہ مولوی صاحب اپنی حج، نمازیں اور روزے جو پہلے ہی اس نوجوان کو دے چکے ہیں، ایک کاغذ پر تحریر کر دیں اور روٹی لے لیں۔ تحریر مکمل ہونے کے بعد وہ نوجوان مولانا صاحب کو روٹی کھلا کر رخصت ہو گیا اور مولوی صاحب ساحل کی طرف چہل قدمی کےلیے آے تو ایک جہاز پر ان کی نظر پڑی مولانا کی کافی چیخ و پکار کی وجہ سے جہاز والوں نے مولانا کو دیکھ لیا اور قصہ مختصر مولوی صاحب گھر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

گھر پہنچنے پر ہزاروں لوگ آنے لگ گئے کہ مولانا صاحب أٹھ سال بعد حج کر کے آے ہیں، کافی دن لوگوں میں مصروف رہنے کے بعد ایک دن مولوی صاحب نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ ملنگ جسے دین کے ارکان کا بھی علم نہ تھا اس کا کیا معاملہ ہوا، موجود ہے یا چلا گیا۔ لوگوں نے بتایاکہ پہلے تو اس کے مریدین اور عقیدت مند ہزاروں میں تھے اب تو تعداد لاکھوں کو پہنچ گئی ہے۔ 

مولوی صاحب نے چند لوگوں کو ساتھ لیا اور دوبارہ بابا فرید کے آستانہ پر پہنچ گیا۔ بابا جی نے اسے آتے دیکھا تو آٹھ کر اس کے استقبال کے لئے آگے تشریف لے گئے اور بڑی عاجزی اور محبت سے ملے، اور اسے اپنی جگہ پر بٹھایا۔ مولوی صاحب نے اپنا سوال دوبارہ دوہرایا کہ دین کے رکن کتنے ہیں ؟ بابا فرید نے وہی جواب دیا، چھ رکن ! مولانا صاحب استغفار پڑھنے لگے، بابا فرید الدین نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر مولوی صاحب کو تھما دیا کہ ذرا اسے پڑھیں۔ مولانا صاحب نے جب وہ تہہ کیا ہوا کاغذ کھول کر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ یہ تو وہی تحریر تھی جو روٹی کے بدلے مولانا نے اس نوجوان کو دی تھی۔ مولانا بابا فرید الدین کے قدموں میں گر پڑے اور معافی مانگی اور مرید ہوگئے۔

یہ واقعہ 700 سال پہلے کا ہے میرا خیال ہے کہ آج سے وہ دور بہتر ہوگا ۔ ہم سے وہ لوگ کروڑ درجے  اور آج کے مولویوں سے وہ مولوی ہزار درجے بہتر ہوں گے، ان لوگوں میں حوصلہ، صبر اور قوتِ برداشت ہم سے کہیں زیادہ ہو گی۔ لیکن پھر بھی بھوک نے ایک عالمِ دین کو شکست دے دی۔

An important message to Prime Minister Imran Khan
An important message to Prime Minister Imran Khan

اس پوسٹ کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آجکل جو مہنگائی چل رہی ھے یہ ایک غریب آدمی کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ جب کہ وزیراعظم کو اس چیز کی بالکل پرواہ نہیں ہے ۔ زیادہ تر جرائم کی بنیادی وجہ بھی یہی ھے۔ یوم قیامت ایسے امور کا حکمرانوں سے حساب مانگا جاۓ گا۔

اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ عمران خان تک پہنچ جائے بلکہ پہنچانے کی کوشش کیجیے۔ شکریہ  

No comments:

Post a Comment